امت رپورٹ:
امریکی صدر ٹرمپ کے جنوری میں وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل دوحہ معاہدہ پرعملدرآمد مشکل ہوگیا ہے اس معاملے سے جڑے ذرائع کے بقول نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے امور مملکت سنبھالے جانے سے پہلے دوحہ معاہدے پر مکمل طورپرعملدرآمد اوراس کے نتیجے میں افغانستان میں قیام امن کے خواب کی تعبیر میں بہت سی رکاوٹیں در پیش ہیں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ بین الافغان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تاریخ تو دی جاچکی ہے تاہم اس بات چیت کے مقام کا تاحال تعین نہیں کیا جاسکا ۔
واضح رہے کہ اب تک امریکہ اور پھر کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات دوحہ (قطر) میں ہوتے رہے ہیں۔ تاہم امریکہ بات چیت کا مزید سلسلہ قطر میں نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ اس پر اپنے اتحادیوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا شدید دباؤ ہے کہ امن بات چیت کے ایک دو سیشن ریاض اور دبئی میں بھی کرائے جائیں تاکہ خطے میں سعودی عرب کی اہمیت اور چوہدراہٹ کو بھی تسلیم کرایا جاسکے۔
انتہائی مستند ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کی ناراضی کے چند اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ جب قطر میں امریکہ کے ساتھ طالبان کے براہ راست مذاکرات چل رہے تھے تو ریاض نے یہی فرمائش پاکستان سے کی تھی۔ پاکستان نے اس حوالے سے یقین دہانی تو کرادی تھی لیکن پاکستان ، ریاض یا دبئی میں یہ مذاکرات ارینج نہیں کرا سکا۔
ذرائع کے بقول اس کی بنیادی وجہ طالبان کا دو ٹوک انکار کرنا تھا۔ طالبان نے پاکستان پر یہ واضح کیا تھا کہ وہ سعودی حکمرانوں پر اعتماد نہیں کرتے لہٰذا کسی صورت ریاض یا دبئی میں مذاکرات نہیں کریں گے۔ طالبان کے اس دو ٹوک موقف پر جب پاکستان نے سعودی خواہش پوری کرنے سے معذوری ظاہرکی تو سعودی عرب ناراض ہوگیا۔
ذرائع کے مطابق یمن جنگ سے متعلق پاکستان کی پالیسی پر تو پہلے ہی سعودی عرب اور اس کی ہمنوا خلیجی ریاستیں، اسلام آباد سے خفا تھیں لیکن بعد میں تعلقات بہتر ہوگئے تھے۔ اسی بنیاد پر سعودی عرب نے پاکستان کو تین ارب ڈالر اور رعایتی قیمت پر ادھار تیل دیا تھا۔
بعد ازاں کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی اجلاس نہ بلانے پر شاہ محمود قریشی کی جانب سے سعودی عرب پرکی جانے والی تنقید بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کا سب بنی لیکن تناؤ کی بڑی وجہ افغان امن عمل سے سعودی عرب اوراس کے اتحادی خلیجی ممالک کا باہر رہنا تھا۔ سعودی حکمرانوں کا دباؤ تھا کہ پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اسے بھی افغان امن عمل مذاکرات کا حصہ بنانے میں اپنا رول ادا کرے اور یہ کہ سعودی حکمرانوں کے خیال میں پاکستان کا افغان طالبان پر اتنا اثرورسوخ ہے کہ وہ اس کی خواہش پوری کراسکتا ہے تاہم کوشش کے باوجود پاکستان مذاکرات کے دو تین سیشن ریاض یا دبئی میں نہ کرا سکا۔
ذرائع کے مطابق اب ایک بار پھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات چاہتے ہیں کہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان جاری بین الافغان بات چیت ان کی میزبانی میں ہو۔ اس بار وہ امریکی اثرورسوخ کے ذریعے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ دباؤ پاکستان پر بھی ہے لیکن فی الحال اس سلسلے میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوسکا ہے اور طالبان نے سعودی عرب پر اعتماد نہ کرنے سے متعلق اپنا موقف برقرار رکھا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ رواں ماہ کی بارہ تاریخ کو کابل حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان جاری بین الافغان مذاکرات کے دوران فریقین کے مابین ایجنڈے کے آئٹمز کی ابتدائی فہرستوں کا تبادلہ کیا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ ایجنڈے پر مزید مشاورت کی ضرورت ہے لہٰذا بات چیت میں تین ہفتے کا وقفہ کیا جائے۔ یہ وقفہ چودہ دسمبر سے شروع ہوا تھا اور اب پانچ جنوری دو ہزار اکیس میں دوبارہ انٹرا افغان مذاکرات شروع ہونے ہیں۔ لیکن مذاکرات کے دوبارہ آغاز میں مقام کا تعین رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
اس دوران وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کابل حکومت اور صدر غنی کے سامنے بھارت سے متعلق پاکستان کا کیس پیش کرنے سے تو قاصر رہے لیکن الٹا یہ وعدہ کر آئے کہ وہ افغانستان میں تشدد کی کمی پر طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے ملک کے مختلف حصوں میں بھارتی دہشت گردی کے ٹھوس شواہد پر مشتمل ڈوزیئر نا صرف اقوام متحدہ کے متعلقہ پلیٹ فارم کو مہیا کیا ہے بلکہ دنیا بھر میں اپنے سفیروں کو بھی یہ ڈوزیئر فراہم کیا ہے، تاکہ وہ اپنے متعلقہ ممالک کے حکام کے سامنے بھارت کا چہرہ بے نقاب کرسکیں۔ اس ڈوزیئر میں اس حوالے سے بھی ٹھوس شواہد ہیں کہ کس طرح بھارت افغانستان میں اپنے قونصل خانوں اور چھیاسٹھ اڈوں کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کررہا ہے تاہم ذرائع کے بقول وزیراعظم نے صدر غنی سے یہ وعدہ تو کرلیا کہ وہ افغانستان میں طالبان حملوں میں کمی کرانے سے متعلق اپنا رول ادا کریں گے لیکن یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کابل حکومت بھی افغانستان میں بھارتی دہشت گردی کے اڈے بند کرائے۔
ذرائع نے بتایا کہ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان وفد کا حالیہ دورہ پاکستان اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ اپنے تین روزہ دورے کے دوران طالبان وفد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے طالبان سے افغانستان میں تشدد میں کمی پر زور دیا تاکہ جنگ بندی کا راستہ ہموار ہوجائے تاہم طالبان کا موقف تھا کہ جب تک دوسرے فریق کی جانب سے تشدد میں کمی نہیں کی جاتی صرف ان کی طرف سے یہ قدم کیسے اٹھایا جاسکتا ہے۔ ذرائع کے بقول طالبان کے موقف کی فوری توثیق یوں بھی ہوگئی، جب وزیراعظم سے ملاقات کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ دوحہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی فورسز نے صوبہ قندھار کے ارغندب اور ارغستان اضلاع کے غیر جنگی علاقوں پر دوبارہ بمباری کی۔ امریکی طیاروں نے ان اضلاع پر چودہ فضائی حملے کیے۔ اس کے نتیجے میں بارہ افراد شہید اور دیگر زخمی ہوئے۔
دوسری جانب طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کے بقول ’’ضرباتی‘‘ کے نام سے امریکی تربیت یافتہ ٹھیکیدار شہریوں پر حملے اور ان کے گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں۔ حالانکہ دوحہ معاہدہ امریکی قابض افواج اوران سے وابستہ ٹھیکیداروں کو غیر جنگی علاقوں پر فضائی حملوں اور چھاپے مار کارروائیوں سے روکتا ہے۔ طالبان ترجمان نے ان حملوں کے ردعمل کا عندیہ دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ حالات کی ذمے داری امریکہ پر ہوگی۔
ادھر سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی آڑ میں امریکہ اور بھارت مل کر کھیل رہے ہیں۔ طالبان سے جنگ بندی اور تشدد میں کمی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن بھارت افغانستان میں اپنی پراکسیز داعش اور ٹی ٹی پی کے ذریعے جو دھماکے کرا رہا ہے اسے روکنے کی بات نہیں کی جاتی اور نہ اس حوالے سے بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کی ناک کے نیچے ہورہا ہے اور وہ اس کے سرپرست بنے ہوئے ہیں۔
ان ذرائع کے بقول داعش کے نام پر افغانستان میں کرائے جانے والے دھماکوں اور دہشت گردی کا مقصد یہ ہے کہ طالبان سے کہا جائے گا کہ وہ داعش کو ختم کرے اور یوں دونوں آپس میں لڑتے رہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان میں امریکی اور بھارتی ایما پر کرائے جانے والے بم دھماکے اور حملوں کا سلسلہ نہیں رکتا طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ صرف وقتی طور پر افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ تاکہ اس عارضی امن کے مختصر عرصے میں امریکہ اپنی افواج وہاں سے نکال کر یہ کہہ سکے کہ وہ انخلا سے پہلے افغانستان میں امن کرا کے آیا تھا۔ بصورت دیگر افغانستان کو مسلسل غیر مستحکم رکھنا امریکہ اور بھارت کے مفاد میں ہے کیونکہ خطے میں اب سی پیک فیکٹر آچکا ہے۔ امریکہ ہر صورت سی پیک کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے لہٰذا اب افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھ کر وہاں بھارتی اثر ورسوخ کو قائم رکھنا، اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔ لہٰذا دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان میں مستقل قیام امن کی امید لگانا بے سود ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ طالبان بھی اس امریکی چال کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ معاہدے پر مکمل عمل سے پہلے کسی صورت جنگ بندی پر آمادہ نہیں۔ بلکہ طالبان نے انتباہ کیا ہے کہ اگر انخلا کے ٹائم ٹیبل کے بعد بھی غیر ملکی افواج افغانستان میں موجود رہتی ہیں تو وہ ان پر دوبارہ حملوں کا سلسلہ شروع کردیں گے۔ یاد رہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت فی الحال طالبان نے افغانستان میں موجود امریکی اورا س کے اتحادی فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ روک رکھا ہے۔