ضیا چترالی:
بھارت میں مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف کسانوں کا احتجاج 28ویں بھی جاری رہا۔ مزید کسانوں کو احتجاج میں شامل کرنے کیلیے وفود مختلف ریاستوں کا دورہ کر رہے ہیں جبکہ مہاراشٹر کے 21 اضلاع کے کسانوں پر مشتمل ایک بڑی ریلی کل دہلی روانہ ہوگئی، جو1266 کلومیٹر طویل سفر طے کرکے24 دسمبر کو دارالحکومت پہنچے گی۔
متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑ رہی ہے اور اس میں مزید افراد شامل ہو رہے ہیں۔ اس تحریک میں مسلمان بھی سکھوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مقامی مسلمان دور دراز سے آئے ہوئے احتجاجی مظاہرین کیلیے کھانے پینے کی ضروریات کا اہتمام کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے، جس میں احتجاج میں شریک مسلمان نماز پڑھ رہے ہیں اور سکھ ان کی حفاظت کیلئے کمربستہ کھڑے ہیں۔ شاہین باغ دہلی میں مسلمانوں کے زبردست تاریخی دھرنے سکھوں نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اب مسلمان سکھ کسانوں کے احتجاج میں بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ مسلمانوں نے مساجد میں قائم باورچی خانے ان کیلیے کھول دیے ہیں۔ شاہین باغ میں خواتین کے عز م و حوصلے میں پختگی کا باعث بننے والی 90 سالہ بلقیس دادی بھی سکھ کسانوں کے مظاہرہ میں اظہار یکجہتی کیلیے پہنچ گئیں، جنہیں دہلی پولیس نے گرفتارکرلیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق مسلمانوں کی تنظیم ’’مسلم فیڈریشن آف پنجاب‘‘ نے سکھ مظاہرین کے لئے ایک ایسے لنگر کا بھی انتظام کیا ہے، جو چوبیس گھنٹے چلتا ہے۔ لنگر میں خدمت پر مامور مسلم نوجوان مبین کا کہنا ہے کہ ہم پنجاب کے ملیر کوٹلہ سے یہاں آئے ہیں اور پہلے دن سے کسان آندولن (تحریک) کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ہماری ٹیم 25 افراد پر مشتمل ہے۔ ہم نے یہاں اپنے کسان بھائیوں کے لیے لنگر لگایا ہے اور ہم ان کو میٹھے و نمکین چاول اور کھانے کی دوسری چیزیں کھلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کی خدمت کرنے کا موقع ملا جو پوری دنیا میں رہنے والے لوگوں کے پیٹ کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ موقع ہمیں خدا تعالیٰ نے دیا ہے۔ ہم لگا تار لگے ہوئے ہیں۔ ہم سب اپنے کسان بھائیوں کی خدمت کے جذبے کے تحت یہاں آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں اپنے ان کسان بھائیوں کی خدمت کرتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ہمارے ساتھ یہاں دہلی اور ہریانہ کے مسلمان بھی جڑ چکے ہیں۔ پنجاب، ہریانہ، راجستھان، مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش جیسی جگہوں سے ہمارے کسان بھائی یہاں آئے ہیں۔ ہم ان سب کی خدمت کر رہے ہیں۔
ریاست مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن سنیل گوپال نے بتایا کہ انہیں سنگھو سرحد پر مسلمانوں کا لنگر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کسان یہاں پر ڈٹے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے اس اقدام نے اس تحریک کو مزید مضبوطی بخشی ہے۔ امید ہے کہ اس میٹھے چاول کی مٹھاس ہم سب کے رشتوں میں بھی گھل جائے گی۔ ہم سب کا رشتہ اتنا میٹھا ہو جائے کہ کوئی بھی حکمران غلط بات کہہ کر ہمیں توڑ نہ سکے۔
بی بی سی کے مطابق ہزاروں مظاہرین تین ہفتوں سے سخت جاڑے میں بھی وہ پر عزم نظر آتے ہیں، انہیں سماج کے ہر طبقے کی جانب سے تعاون بھی دکھائی دے رہا ہے۔ بی بی سی کا نمائندہ جب احتجاجی کیمپ پہنچا تو مسلمانوں کے لنگر سے رات کے دو بجے وہاں گرم گرم میٹھے چاول تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
کوٹلہ سے تعلق رکھنے والے طارق منظور نے بتایا کہ وہ یہاں 27 نومبر سے ہی 24 گھنٹے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مالیر کوٹلہ کے مسلمان زیادہ تر تاجر ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ سب کی تحریک ہے اور وہ اس میں اس طرح اپنا تعاون پیش کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں نہ صرف میٹھے چاول بلکہ نمکین چاول بھی پیش کر رہے ہیں۔ تمام مذاہب کے احترام میں انہوں نے ویج کا انتظام کر رکھا ہے، زردہ پلاؤ مسلمانوں کی ایک اہم ڈش ہے، جو خاص مواقع پر پیش کی جاتی ہے اور کسانوں کی تحریک کسی خاص موقعہ سے کم نہیں۔ وہاں پر موجود دہلی کے نواب نامی مسلمان نے کہا کہ وہ بھی لنگر میں تعاون کرنے آئے ہیں۔ مسلمان ملک کے لیے ہر خدمت میں پیش پیش رہے ہیں اور یہ بھی ایک خدمت ہے۔ جبکہ امجد کا کہنا تھا کہ یہاں میلے کا سماں ہے۔ ہر تھوڑی دور پر کوئی نہ کوئی لنگر چل رہا ہے، کہیں جلیبیاں تلی جا رہی ہیں تو کہیں پوریاں۔
طارق منظور نے سکھ برادری اور مسلمانوں کے تعلق بارے میں پوچھا تو انہوں نے دونوں کے مابین ہم آہنگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مالیر کوٹلہ کے نواب نے سکھوں کے آخری گرو کا ساتھ دیا تھا اور ایک کرپان بھی انہیں تحفے میں دی تھی۔ مالیر کوٹلہ انڈین پنجاب کا وہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلم اکثریت ہے اور اس جگہ کی اپنی ایک تاریخ ہے کہ تقسیم ہند میں پورے مشرقی پنجاب سے بڑی تعداد میں پاکستان نقل مکانی ہوئی تھی، لیکن مالیر کوٹلہ سے لوگوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔
دریں اثنا مجلس علمائے جھاڑکھنڈ نے بھی کسانوں کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مجلس کے ناظم اعلیٰ مولانا ڈاکٹر قاسمی نے مودی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب سے مرکز میں بی جے پی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس وقت سے مسلسل ایسے قانون لا رہی ہے جو ملک کے مٹھی بھر سرمایہ دار طبقہ کے مفاد میں ہو۔اس لئے مجلس کسانوں کی تحریک کی مکمل حمایت کرتی ہے۔