مزار قائد کی بے حرمتی کے بعد کیپٹن صفدرکی گرفتاری کا واقعہ، تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے کیپٹن صفدر کو گرفتار کروانے کیلیے پولیس پر دباﺅ ڈالا اورایف آئی آر درج کروائی ،تحریک انصاف نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلیے مزار قائد کی حرمت کا استعمال کیا۔
ترجمان سندھ حکومت مرضی وہاب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مزار قائد کی 18 اکتوبر کو ایک واقعہ رونما ہوا جس کو کابینہ کی کمیٹی سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف اوروفاقی وزراءنے اپنے سیاسی مقاصد کو حاص کرنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جبکہ قائداعظم کے مزار کی حرمت کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ۔
سب سے پہلے پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی راجہ اظہر نے پولیس کو درخواست جمع کروائی ، پولیس نے اس درخواست کے جواب میں قانونی موقف اختیار کیا کہ یہ درخواست پولیس کو نہیں بلکہ مجسٹریٹ کو جمع کروائیں، یہ کارروائی ان کا دائرہ اختیار ہے، جب راجہ اظہر کی درخواست مسترد کردی گئی تو دوسری درخواست مزار قائد کے ایڈمنسٹریٹرغلام اکبر نے جمع کروائی وہ درخواست بھی بالکل پہلی جیسی ہی تھی پولیس نے دوبارہ وہی جواب دیا کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔
ان کا کہناتھا کہ اس دوران تمام پی ٹی آئی کے لیڈران نے تھانے میں اپنا پڑاﺅ ڈالا ، تھانے میں جا کر ان کا جولہجہ تھا وہ قابل مذمت تھا ، اس قانونی پیچیدگی سے نکلنے کیلئے پی ٹی آئی نے ایک نیا راستہ نکالا، انہوں نے ایک شخص کو کھڑا کیا جس نے درخواست جمع کروائی کہ مزارکی بے حرمتی تو ہوئی لیکن کیپٹن صفدرنے مجھے جان سے مارنے کی بھی دھمکی دی۔جب یہ درخواست جمع کروائی گئی تو پولیس اس پر کارروائی کر سکتی ہے ،اس میں دفعہ 506 شامل کی گئی ، پولیس نے اس درخواست پرایف آئی آر درج کی جس کے بعد کیپٹن صفدرکی گرفتاری ہوئی لیکن عدالت نے چوبیس گھنٹے کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا ۔
مرتضیٰ وہاب کا کہناتھا کہ جب پولیس نے اپنی تفتیش مکمل کی تو نتیجہ نکالا کہ یہ ایف آئی آرجھوٹی ہے ، پولیس نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تو عدالت نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے ایف آئی آر کو ختم کر دیا۔کمیٹی کے سامنے سب سے پہلے یہ پہلو آیا کہ جب جوڈیشل آرڈر پاس ہو چکاہے تو یہ صاف ہے کہ ایف آئی آرغلط بیانی پر مبنی تھی ، کمیٹی نے پھر تمام محرکات کی تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ مدعی نے اپنی درخواست میں موبائل نمبر بھی دیا تھا، اس کے ذریعے اس کی لوکیشن کو ٹریس کیا گیاجو کہ شام چار بجے سے پانچ بجے کے درمیان سپر ہائی وے کراچی بکائی میڈیکل ینونیورسٹی کی نکلی جو کہ مزار قائد سے میلوں دور ہے ۔
ترجمان سندھ اسمبلی کا کہناتھا کہ پھر یہ پتا چلا کہ درخواست جمع کروانے والا شخص کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا سیاسی کارکن ہے، اس بات کا بعد میں پاکستان تحریک انصاف کے سندھ کے پارلیمانی لیڈرنے اعتراف کیا کہ وہ شخص پارٹی کا رکن ہے اور ہمارا رشتہ دار بھی ہے ۔مزار قائد پر دعاکروانے والے قاری صاحب کا بھی بیان ریکارڈ کیا گیا، انہوں نے پولیس کو بتایا کہ جس طریقے سے یہ بتا رہے ہیں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی ،اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پی ٹی آئی کے بہت سارے ممبران اسمبلی اور قومی اسمبلی تھانے میں موجود تھے ، ان کی ویڈیوز کو دیکھا گیا ، ان کا دھمکی آمیز رویہ ویڈیو میں نظر آ رہاہے ۔
ان کا کہناتھا کہ ویڈیو میں یہ بھی نظر آ رہاہے کہ وفاقی وزیر خود تھانے پر جاتے ہیں اور پولیس پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، سوشل میڈیا پر وہ پیغامات اور پریس کانفرنس موجود ہیں جس میں وہ آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کے حوالے سے دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے اپنے رکن کو کھڑا کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور اہم آئینی عہدے پر موجود شخص ٹی وی پر آیا اور کہا کہ میری آئی جی سندھ سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے بھی کہاہے کہ اس پر مقدمہ درج ہونا چاہیے ،کابینہ کمیٹی کا موقف ہے کہ سرکاری کام میں مداخلت کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں ، چاہے وہ گورنر ہو یا پھر رکن اسمبلی ۔
ان کا کہناتھا کہ قانونی ادارے قانون کے مطابق کام کرتے ہے ، پی ٹی آئی کے لوگوں نے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے مزار قائد کو استعمال کیا تاکہ 18 تاریخ کے پی ڈی ایم کے جلسے کو انڈر مائن کیا جا سکے ، کابینہ کمیٹی کی سفارش پر سندھ حکومت ،وفاقی حکومت کو خط لکھے اور بتائے گی کہ کس طرح سے آپ کے لوگوں اور اراکین اسمبلی نے آفیشل ایکٹ آف پولیس میں مداخلت کرنے کی کوشش کی اور سرکاری ملازمین پر دباﺅ ڈالا،وفاقی حکومت کے لوگ سندھ حکومت کے تابع نہیں ، اس لیے ہم سفارشات وفاقی حکومت کو بھیج رہے ہیں ، تاکہ وہ نوٹس لے اور کارروائی کرے ۔
مرتضیٰ وہاب کا کہناتھا کہ کابینہ کمیٹی نے یہ بھی فیصلہ کیاہے کہ پولیس نے جب پریشر میں آ کر مقدمہ درج کرلیا تو پولیس کو پہلے ثبوتوں کو دیکھنا چاہیے تھا پھر اس شخص کو گرفتار کرنا چاہیے تھا ،اس حوالے سے بھی ہم نے پولیس کو سفارشات پیش کی ہیں کہ وہ طریقہ کار واضح کریں کہ ہر ایف آئی آر پر ایسی کارروائی نہیں ہونی چاہیے ، کسی کی چار دیواری کو پامال نہیں کرنا چاہیے ۔ ایف آئی آر پر جو ٹائم درج کیا گیاہے وہ شام سات بجے کا ہے جبکہ کمیٹی کے پاس شواہد موجود ہیں کہ ایف آئی آر صبح پانچ بجے کاٹی گئی ، یہ کیسے ہو سکتاہے کہ شام پانچ بجے کا وقت ایف آئی آر میں لکھ دیا جائے ، پولیس کو اس پر بھی ذمے داری کا مظاہرہ اور پریشر کا سامنا کرنا چاہیے تھا ، وفاقی حکومت کے نمائندوں کو اس طرح سرکاری کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی ۔
ان کا کہناتھا کہ میڈیا میں پاک فوج کے افسران کے حوالے سے اس واقعہ کو لے کر خبر نشر ہوئی تھی اس پر ، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں چیف آف آرمی اسٹاف سے گزار ش کی تھی کہ ہر چیز قانون کے مطابق ہونی چاہیے ،قانونی اعتبار سے ان کے افسران پرآرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتاہے ،جسے کوئی اوراستعمال نہیں کر سکتا ، آرمی چیف نے فوری اس معاملے کا نوٹس لیا اور کورٹ آ ف انکوائری تشکیل دیا ،اس نے اپنی تحقیقات کے بعد سفارشات ارسال کیں جس کے بعد ڈسپلنری کارروائی کی گئی ، کمیٹی کا یہ خیال ہے کہ پوری کہانی میں ہم سب کو قانون اورسرکاری عہدوں کا احترام کرنا چاہیے،احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا پنا کام کرنا چاہیے ۔اگلے ہفتے وفاقی حکومت کو خط بھیجا جائے گااورانکوائری رپورٹ کو پبلک کردیا جائے گا ۔