امت رپورٹ:
لندن میں نواز شریف کے پاسپورٹ کو لے کرقانونی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم کے پاکستانی پاسپورٹ کی میعاد پندرہ فروری کو ختم ہو رہی ہے۔ جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید، نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
لندن میں موجود شریف فیملی کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ میڈیا میں یہ ایشو ابھی ہائٹ لائٹ ہوا ہے تاہم نواز شریف نے اس حوالے سے ابتدائی مشاورت دو ڈھائی ماہ قبل ہی کرلی تھی یعنی ایسا نہیں تھا کہ اس معاملے سے شریف فیملی غافل بیٹھی ہو۔ ظاہر ہے کہ پاسپورٹ کے حامل فرد کو کسی دوسرے سے زیادہ پتہ ہوتا ہے کہ اس کی سفری دستاویزات کب ایکسپائر ہو رہی ہیں۔
شریف فیملی کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جب دو ڈھائی ماہ قبل لندن میں بیٹھ کر نواز شریف نے گوجرانوالہ جلسے میں انتہائی تلخ ورچوئل خطاب کیا تھا تو ٹھیک اس دوران ان کے صاحبزادے حسن نواز کی لندن کی بعض ٹاپ امیگریشن لا فرموں سے پاسپورٹ کی ایکسپائری کے بارے میں مشاورت چل رہی تھی۔
ذرائع کے بقول شریف فیملی کو شروع سے پتہ تھا کہ اگلے برس فروری میں نواز شریف کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے پر حکومت تجدید نہیں کرے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھ کر ہی امیگریشن لا فرموں سے قبل از وقت مشاورت شروع کردی گئی تھی اور یہ کہ لا فرموں کی جانب سے حوصلہ افزا جواب ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاسپورٹ ایکسپائری کے بعد کے سیناریو سے مطمئن ہو کر ہی نواز شریف نے اپنے خطابات میں ریڈ لائن عبور کرنے سے گریز نہیں کیا۔
شریف فیملی کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی کہ سابق وزیراعظم نے برطانیہ میں سیاسی پناہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چند روز پہلے ہونے والی مشاورت میں طے کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں دیگر آپشنز کو استعمال کیا جائے گا۔ کیونکہ سیاسی پناہ لینے کی صورت میں نہ صرف حکومت کو تنقید کرنے کا جواز مل جائے گا۔ بلکہ پارٹی کارکنوں کا مورال بھی متاثر ہوگا اور لیگی رہنما نواز شریف کے اس اقدام کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔
ذرائع کے مطابق پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد نواز شریف کے لندن میں مزید قیام کے حوالے سے جن دو آپشنز پر سب سے زیادہ غور کیا جارہا ہے۔ ان میں ایک میڈیکل گرائونڈ پر رعایت لینے سے متعلق ہے۔ اس کے لئے برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سینٹر سے منسلک کسی ڈاکٹر کو تحریری طور پر برطانوی ہوم آفس کو باور کرانا ہوگا کہ نواز شریف کی طبیعت ابھی بہتر نہیں اور مسلسل علاج کے لئے ان کا لندن میں مزید قیام ضروری ہے۔
ذرائع کے مطابق جن امیگریشن لا فرموں سے شریف فیملی نے اب تک مشاورت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیکل گرائونڈ پر لندن میں مزید قیام کا آپشن سب سے بہتر ہے۔ اس میں وقتاً فوقتاً توسیع لئے جانے کا آپشن موجود ہے۔ جبکہ دوسرا آپشن معمر والدین کے لیے متعارف کرائے گئے نئے برطانوی امیگریشن قوانین کو استعمال کرنے کے حوالے سے ہے۔ جس کے تحت کوئی بھی برطانوی شہری اپنے معمر والدین کو غیر معینہ مدت کے ویزے پر اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق شریف فیملی نے متذکرہ ان دو آپشنز میں سے ایک کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اگلے ہفتے تک باقاعدہ پراسس کا آغاز متوقع ہے۔ یوں نواز شریف نے سیاسی پناہ لینے یا اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں درخواست دینے کے آپشنز مسترد کر دیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے تو اب نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نواز شریف اس سے قبل ہی پاسپورٹ کی تجدید کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن میں درخواست نہ دینے کا فیصلہ کر چکے تھے کیونکہ شریف فیملی کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہائی کمیشن میں درخواست دینا بیکار مشق ہوگی۔
دوسری جانب شریف فیملی کے قریبی ذرائع نے ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی نواز شریف سعودی عرب یا قطر شفٹ ہوجائیں گے۔ ذرائع کے بقول یہ آپشن اس لیے قابل عمل نہیں کہ سعودی عرب یا قطر میں بیٹھ کر نواز شریف اس طرح اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکیں گے جیسی آزادی انہیں برطانیہ میں حاصل ہے پھر یہ کہ سعودی عرب اور قطر میں رہائش کی صورت میں حکومت پاکستان کو ان تک رسائی آسان ہوجائے گی۔ بالخصوص سعودی عرب کبھی نہیں چاہے گا کہ سابق وزیراعظم کی وجہ سے ریاست پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید تلخی پیدا کرے۔
اس سارے معاملے پر بات چیت کے لیے جب لندن میں مقیم معروف قانون داں بیرسٹر امجد ملک سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر برطانیہ میں کوئی قانونی طور پرآیا ہو۔ اس کے پاس ویزہ ہو یا وہ ویزے کے پراسس میں ہو تو پاسپورٹ ایکسپائر ہونے کے بعد بھی وہ برطانیہ میں قیام کرسکتا ہے۔ جیسے نواز شریف اپنے علاج کے لئے قانونی طریقے سے لندن میں آئے تھے۔ جب تک ان کا علاج چل رہا ہے۔ پاسپورٹ ایکسپائر ہونے کی وجہ سے ان کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
بیرسٹر امجد ملک کا مزید کہنا تھا ’’حکومت پاکستان نواز شریف کا پاسپورٹ اپنے پاس رکھے یا کینسل کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں ان کا قیام اب تک قانونی ہے۔ برطانیہ میں رہنے کے لئے ان کے پاسپورٹ کی تجدید ضروری عمل نہیں۔ وہ علاج کی غرض سے برطانیہ میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی حکومت انہیں سفری دستاویزات جاری کرنے کی مجاز ہے۔
آرٹیکل پندرہ ہر پاکستانی کو یہ حق دیتا ہے لہٰذا نواز شریف کے پاسپورٹ کی تجدید نہ کرکے حکومت آرٹیکل پندرہ کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوگی اسی طرح پاسپورٹ کینسل ہونے کی صورت میں بھی نواز شریف کو زبردستی پاکستان لے جانا ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تحویل ملزمان یا مجرمان کا اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یہی قانونی اور حقیقت پسندانہ پوزیشن ہے۔ باقی نواز شریف کے پاسپورٹ کو لے کر جو بیانات یا کہانیاں بیان کی جارہی ہیں۔ وہ سب محض خبروں کی ہیڈ لائن بنانے کے لیے ہیں‘‘۔
ادھر پاکستان میں موجود لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو امید تھی کہ فروری میں ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی حکومت مخالف تحریک کے نتیجے میں حالات سازگار ہوجائیں گے۔ لہٰذا پاسپورٹ کی ایکسپائری کے بعد لندن میں مزید قیام کے لئے انہیں زیر غور آپشنز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک نواز شریف کے اندازوں کے برعکس اس تیز رفتاری سے نہیں چل پائی کہ جس سے پاکستان میں نئے سیاسی سیٹ اپ کا فوری امکان پیدا ہوجاتا اور یوں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ بھی ہموار ہوجاتی۔
لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف کی پاکستان واپسی کی سب سے بڑی مخالف مریم نواز ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں نواز شریف کا واپس آنا عقلمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر پارٹی قیادت نواز شریف کو پاکستان آنے کا مشورہ دیتی بھی ہے تو مریم نواز کسی صورت اپنے والد کواس مشورے پر عمل نہیں کرنے دیں گی۔