امت رپورٹ:
ہفتے اوراتوارکی درمیانی شب بجلی کے ملک گیر بریک ڈائون کی حتمی وجوہات کا تعین نہ ہوسکا۔ ان اسباب کا پتہ چلانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے اور ساتھ ہی چھوٹے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے ترسیلی نظام میں ضروری مینٹی نینس کا سلسلہ ترک کرنے سے ملک گیر بریک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا۔ مینٹی نینس پر توجہ نہ دینے کی صورت میں اس نوعیت کے مزید بریک ڈائون خارج از امکان نہیں۔ دوسری جانب سیکورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو بیرونی جارحیت کے خطرات لاحق ہیں۔ بڑے پیمانے پر اس طرح کے بجلی بریک ڈائون سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ہفتہ کی رات تقریباً پونے گیارہ بجے کے قریب بجلی کے اچانک بریک ڈائون کے نتیجے میں پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔ اتوار کی شام تک بھی ملک کے بیشتر حصوں میں بجلی بحال نہیں کی جا سکی تھی۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کے مطابق گدو پاور پلانٹ میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے دس ہزار تین سو میگا واٹ سسٹم سے آئوٹ ہوگئے تھے۔ تاحال یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ خرابی کس وجہ سے آئی تھی۔
وزارت پانی و بجلی سے منسلک رہنے والے ایک سابق عہدیدار نے جو اب بھی بیوروکریسی کا حصہ ہیں، حکومت کے اس دعوے کو رد کر دیا کہ ملک گیر بجلی بریک ڈائون کی خرابی کی وجہ کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ اس سابق عہدیدار کے مطابق بڑے پیمانے پر بجلی کے تازہ بریک ڈائون کے اسباب واضح ہیں۔ اس پر گزشتہ حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے حکومت کو اعتراف کرنا چاہیے کہ بجلی کے ٹرانسمیشن سسٹم کو جس مینٹی نینس کی ضرورت ہے۔ پچھلے ڈھائی تین برس سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے نتیجے میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پورا ٹرانسمیشن سسٹم Fragile (نازک) ہو چکا ہے۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں بھی اس نوعیت کے مزید بریک ڈائون خارج از امکان نہیں۔
؎سابق عہدیدار کے مطابق یہ پہلی بار نہیں کہ قوم کو ملک گیر بجلی بریک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تیئیس فروری دو ہزار تیرہ کو اسی نوعیت کے بجلی بریک ڈائون کے سبب چند گھنٹوں کے لئے پورا ملک تاریکی میںڈوب گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر پانی و بجلی کا بھی یہی کہنا تھا کہ صوبہ بلوچستان میں ایک بجلی گھر میں تکنیکی خرابی پیدا ہونے سے بجلی کا نیٹ ورک ٹوٹ گیا۔ اور یہ کہ حکومت نے اس بڑے بریک ڈائون کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن یہ تحقیقات کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکیں کہ اس وقت بھی مسئلہ یہی تھا، جو تازہ بریک ڈائون کا سبب بنا ہے۔ لہٰذا تحقیقات سرد خانے میں ڈال کر خاموشی سے ترسیل کے نظام کو کچھ بہتر بنالیا گیا۔
بعد ازاں جون دو ہزار پندرہ میں بھی ملک کو اسی طرح کے بریک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس وقت وجوہات دوسری تھیں۔ بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں بلوچ دہشت گردوں نے بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں پر حملہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں نیشنل گرڈ بری طرح متاثر ہوا تھا اور ملک کا اسّی فیصد حصہ تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔ اس حملے نے سندھ میں گدو پاور پلانٹ سے بلوچستان میں سبی تک کی ترسیلی لائن کو درہم برہم کر دیا تھا۔ جس کے سبب نیشنل گرڈ ٹرپ ہوا اور ساتھ ہی بن قاسم اور جامشورو تھرمل پاور اسٹیشنوں کو بھی آف لائن کرنا پڑا تھا کہ ملک کی تمام بجلی کمپنیاں متاثر ہوئی تھیں۔
سابق عہدیدار کے مطابق اس حملے کے بعد نون لیگی حکومت نے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) میں زوننگ سسٹم لگا دیا تھا۔ یہ ایک طرح کا بریکر سسٹم تھا کہ اگر ملک کے کسی ایک بجلی گھر میں کوئی خرابی آتی ہے یا وہ بند ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات سے نیشنل گرڈ اور دیگر بجلی گھروں کو بچایا جا سکے۔ تاہم موجودہ حکومت کے پچھلے ڈھائی سالہ دور میں اس زوننگ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے یا اس کی مینٹی نینس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے نتیجے میں ہفتے کی شب جب گدو پاور پلانٹ میں خرابی آئی تو ملک بھر کا پورا بجلی سسٹم خود بخود بند ہونا شروع ہو گیا۔ اب اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنے کے بجائے وزیر توانائی اور وزیر اطلاعات اس بجلی بریک ڈائون کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال رہے ہیں۔
سابق عہدیدار کے مطابق پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بجلی کا یہ دوسرا ملک گیر بریک ڈائون ہے۔ تاہم یہ جس وسیع پیمانے پر ہوا اور اس کا طویل ترین دورانیہ واقعہ کے زیادہ ہائی لائٹ ہونے کی وجہ بنا ہے۔ دو ہزار انیس میں بھی گدو پاور پلانٹ میں خرابی کے سبب سندھ اور بلوچستان میں بجلی کا بڑا بریک ڈائون ہوا تھا۔ اگر اس وقت ہی پی ٹی آئی حکومت اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے نہ صرف ترسیلی نظام کی مسلسل مینٹی نینس پر توجہ دیتی۔ بلکہ زوننگ سسٹم کو بھی اپ گریڈ کرتی رہتی تو آج ملکی تاریخ کے سب سے بڑے بریک ڈائون کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ترسیلی سسٹم کی مینٹی نینس، ایک مسلسل عمل ہے۔ اگر اس کو بہتر نہیں بنایا گیا تو مستقبل میں اس نوعیت کے مزید بریک ڈائون خارج از امکان نہیں۔
نون لیگی رہنما مفتاح اسماعیل نے بھی اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ نون لیگ نے مینٹی نینس کا ایک سائیکل شروع کیا تھا۔ جس کا مقصد گدو، جامشورو، مظفر گڑھ اور اس جیسے دیگر اہم مقامات کے انسولیٹرز کی صفائی، ان کے پیرامیٹرز کی جانچ اور جہاں ضرورت ہو، وہاں خصوصی کوٹنگ لگانا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت اس مینٹی نینس سائیکل کوبرقرار رکھنے میں ناکام رہی۔
ادھر سینٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ نے بجلی کے ملک گیر بریک ڈائون کی ابتدائی تحقیقات کے بعد سات ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ ان ملازمین میں ایڈیشنل پلانٹ منیجر سہیل احمد، جونیئر انجینئر دیدار علی چنہ، فورمین علی حسن گھلو، آپریٹر ایاز حسین ڈاہر، آپریٹر سعید احمد، اٹینڈنٹ سراج احمد میمن اور الیاس احمد شامل ہیں۔ چھوٹے ملازمین کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تمام ملازمین پلانٹ منیجر ٹو کے ماتحت کام کرتے تھے۔ ان کی غیر ذمہ داری اور بے توجہی کے باعث بریک ڈائون ہوا۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ان زیر عتاب ملازمین سے کس نوعیت کی غیر ذمہ داری سرزد ہوئی۔
دوسری جانب معروف سیکورٹی و دفاعی تجزیہ کار آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ملک گیر بجلی بریک ڈائون سیکورٹی لحاظ سے تشویشناک ہیں۔ پہلے بھی بڑے بریک ڈائون ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا اب تک ان پر قابو پالیا جانا چاہئے تھا۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ دشمن ملک بھارت پاکستان کے خلاف مس ایڈونچر کا پلان بنا رہا ہے۔ اس نوعیت کے بریک ڈائون سیکورٹی خطرات بڑھا دیتے ہیں۔ کیونکہ اندھیرا ہمیشہ دشمن کے ایڈوانٹیج میں ہوتا ہے۔ نقل و حرکت کو چھپانے کے لیے اسی لیے دھواں چھوڑا جاتا ہے اور کبھی کیمو فلاج کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ تاریکی میں دشمن کو حملہ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اور دہشت گردوں کو بھیجنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بڑے بریک ڈائون کے بعد بجلی بحالی میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
حالیہ بریک ڈائون کے سبب تو پوری رات ملک تاریکی میں ڈوبا رہا۔ ایسے میں اگر دشمن کو کوئی گڑبڑ کرنی ہے تو وہ ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت نہیں لیتا۔ آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ بالخصوص موجودہ حالات میں اس نوعیت کے بجلی بریک ڈائون سے بچنے کے اقدامات کی انتہائی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ پاکستان کی بجلی کا کنٹرول غیر ملکی بجلی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب چاہیں سوئچ آف اورآن کرسکتی ہیں۔