امت رپورٹ:پہلی قسط
وزارت صنعت کے ذیلی ادارے یوٹیلٹی اسٹورزکارپوریشن میں ایمانداروں پر ستم اور بے ایمانوں پرکرم کا سلسلہ جاری ہے۔ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر(ایم ڈی) عمر لودھی کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کو خط لکھنے والے چیئرمین ذوالقرنین خان کو خاموش کرادیا گیا ہے اور وہ پچھلے چندہ ماہ سے بیرون ملک بیٹھے ہیں۔
دوسری جانب انٹرنل آڈٹ رپورٹ میں کارپوریشن کو صرف تین ماہ کے دوران سات سو ملین روپے کے مالی نقصان کی نشاندہی کرنے والے کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح دال چنا کی خریداری اوردیگرگھپلوں سے پردہ اٹھانے کے ’’جرم ‘‘ میں ایک سینئراسٹور منیجرکو فارغ کردیا گیا۔ جبکہ خراب شہرت کے حامل بعض زونل منیجروں کو فری ہینڈ ملا ہوا ہے۔
پچھلے برس جولائی کی 29 تاریخ کو چیئرمین بورڈ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن ذوالقرنین علی خان نے وفاقی انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو ایک خط لکھا تھا کہ وہ ضروری سامان کی خریداری کے لئے مختص فنڈز میں مبینہ غبن کی تحقیقات کرائے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اس خط کی کاپی کے مطابق ایف آئی اے سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں کارپوریشن کے سینکڑوں اسٹوروں کے لیے آٹا، چینی، گھی، دالوں اور چاول کی خریداری میں ہونے والی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرائی جائیں۔
خط میں چیئرمین نے نشاندہی کی کہ کم قیمتوں یعنی سڑسٹھ سے ستر روپے فی کلو چینی خریدنے کے بجائے انتظامیہ نے اجناس کو زیادہ قیمت پر خریدا اور یہ کہ وزیراعظم کے امدادی فنڈ کے تحت بنیادی اجناس پراربوں روپے کی سبسڈی دینے کی تحقیقات بھی کرائی جائیں۔
علاوہ ازیں چیئرمین نے خط میں یہ ذکر بھی کیا تھا کہ ماہ رمضان کے دوران بورڈ کی منظوری کے بغیر انتظامیہ نے دو ہزار چھ سو دو ملازمین کی خدمات حاصل کیں۔ چیئرمین ذوالقرنین علی خان نے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو کرپشن کا گڑھ قرار دیتے ہوئے ایم ڈی عمر لودھی پر الزام لگایا تھا کہ وہ گھپلوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے پاسکو سے گندم نہیں خریدی اور اس کے بجائے زیادہ نرخوں پر ملوں سے آٹا خریدا۔
چیئرمین بورڈ ذوالقرنین کی طرف سے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ایم ڈی عمر لودھی کے خلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کے لئے ڈی جی ایف آئی اے کو لکھے گئے خط کو آج لگ بھگ چھ ماہ ہوچکے ہیں۔ لیکن کسی قسم کی انکوائری کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔
کارپوریشن کے ایک اہم ذمہ دار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس معاملے پر ایک طرح سے مٹی ڈال دی گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بورڈ چیئرمین کی جانب سے اس قدر سنگین الزامات کے بعد ایم ڈی کو ڈی سیٹ کرکے ان کے خلاف مبینہ گھپلوں کی تحقیقات کرائی جاتیں کیونکہ وزیراعظم خود یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر کسی کے خلاف کرپشن کا الزام بھی لگ جائے تو اسے اپنی سیٹ چھوڑکرخود کو تحقیقات کے لیے پیش کر دینا چاہیے۔ اس کے برعکس نہ صرف موجودہ ایم ڈی عمر لودھی اب تک اپنی ذمے داریاں نبھارہے ہیں بلکہ چیئرمین کو خاموش کراکے باہر بھیج دیا گیا۔ وہ پچھلے چند ماہ سے دبئی میں بیٹھے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک طویل عرصے سے بورڈ کی میٹنگ بھی نہیں بلائی جاسکی ہے۔
مذکورہ ذمے دار نے یہ بھی بتایا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ایم ڈی عمر لودھی رواں برس اپریل میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جبکہ اپنی پوسٹنگ میں توسیع کے لئے انہوں نے ابھی سے ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ ان کی کوششیں کامیاب ہوجائیں گی کہ وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر، سیکریٹری انڈسٹری افضل لطیف اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی ان پر خصوصی نظر کرم ہے۔
کارپوریشن کے ہیومن ریسورس شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ذریعہ نے بتایا کہ ایم ڈی کارپوریشن کے عہدے پرعمرلودھی کی تقرری بھی حیران کن تھی۔ میرٹ لسٹ میں عمر لودھی کا نمبر تیسرا تھا۔ یوں پہلے دو قابل امیدواروں کو نظراندازکرکے عمر لودھی کو نوازا گیا۔
اس کی تفصیل بتاتے ہوئے ذریعے کا کہنا تھا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ایم ڈی کے عہدے سے متعلق شائع اشتہار کے جواب میں کارپوریشن کو ایک سو اکیاسی درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ ذریعے کے بقول ناموں کی شارٹ لسٹنگ تک کا عمل بالکل شفاف تھا تاہم جب ایم ڈی کے عہدے کے لیے تین نام شارٹ کرکے آگے بھیجے گئے تو اس وقت گڑبڑکی گئی۔ ایم ڈی کے عہدے کے لیے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ایک سو اکیاسی امیدواروں میں سے جن تین ناموں کی سفارش کی تھی۔ ان میں پہلی پوزیشن سلمان انیم، دوسری پوزیشن فرحان حسن اور تیسری پوزیشن عمر لودھی کی تھی۔ لہٰذا ایم ڈی کی پوسٹ کے لیے پہلی پوزیشن والے سلمان انیم کو فیورٹ قرار دیا جارہا تھا۔ تاہم حیرت انگیزطور پر پہلی دو پوزیشن حاصل کرنے والے امیدواروں کو نظر انداز کرکے تیسری پوزیشن والے عمر لودھی کو ایم ڈی بنا دیا گیا۔
ذریعے کے مطابق میرٹ کے برخلاف ایم ڈی کی اس تقرری پر کارپوریشن کے حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ انہیں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی سپورٹ کا ایڈوانٹیج ملا ہے۔ بعد ازاں ایم ڈی کی پوسٹ کے لیے اپلائی کرنے والوں میں سے ایک ناکام امیدوار نے بطورایم ڈی عمر لودھی کی قابلیت اور تجربے کو چیلنج کیا۔ لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والا محمد سجاد تھا۔
ایبٹ آباد کی یوسف خان کالونی کا رہائشی مجمد سجاد مشرق وسطیٰ کی بڑے ریٹیلر اسٹورز کی چین سے وابستہ تھا۔ ان میں سعودی عرب کی پانڈا اور قطر کی المیرا قابل ذکر ہیں۔ محمد سجاد کو ریٹیل پروفیشن میں پچیس برس کا تجربہ تھا۔ ملک میں تبدیلی کے نام پر تحریک انصاف برسراقتدارآئی تو اس نعرے کے سحر میں آکر اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو محمد سجاد وطن لوٹ آیا۔ سرمیں یہ سودا سمایا تھا کہ ریٹیل سیکٹر میں برسوں جو تجربہ بیرون ملک حاصل کیا ہے۔ اس تجربے سے اپنے ملک کو فائدہ پہنچایا جانا چاہیے۔
محمد سجاد کے بقول وہ سوچ رہے تھے کہ ویسے بھی اب انصاف پر مبنی ایک ایسی حکومت برسراقتدار آگئی ہے، جس کی مدد کے لئے بیرون ملک مختلف فیلڈ میں تجربہ رکھنے والے ہر پاکستانی کو واپس آنا چاہئے۔ پاکستان پہنچ کر محمد سجاد نے جب یوٹیلٹی اسٹورزکے ایم ڈی سے متعلق اشتہار دیکھا تو پہلی فرصت میں اپلائی کر دیا۔
محمد سجاد اپنے تئیں اس پوسٹ کے لئے درکار تعلیمی قابلیت، تجربے اور دیگر شرائط و ضوابط پر وہ پورا فٹ بیٹھتا تھا۔ دل میں یہی خوش کن خیالات لیے اس نے ایم ڈی کی پوسٹ کے لئے اپلائی کر دیا۔ تاہم بدقسمتی سے اس کا نام دیگر ایک سو اٹھہتر ناکام امیدواروں کی لسٹ میں آگیا۔
محمد سجاد نے یہ سوچ کر صبرکرلیا کہ شارٹ لسٹ کیے گئے تین نام یقیناً ان سے بہتر ہوں گے تاہم جب تیسری پوزیشن والے امیدوار عمر لودھی کا بطورایم ڈی انتخاب کیا گیا تو محمد سجاد کو خاصی حیرت ہوئی اور نئے پاکستان کا خیال اس کے ذہن میں دھندلانے لگا۔ وہ خاموش رہا۔ لیکن اس نے اس دوران عمر لودھی کی سی وی کا جائزہ لینا شروع کیا۔ جو انہوں نے ایم ڈی کی پوسٹ کے لیے اپلائی کرتے وقت جمع کرائی تھی۔ پھر اس نے لنکڈان میں موجود عمر لودھی کے پروفائل کو چیک کیا۔ جانچ پڑتال کے اس عمل کے دوران محمد سجاد پرعیاں ہونے لگا کہ نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ سب سے زیادہ شارٹ لسٹ کئے جانے والے دو امیدواروں کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ اس دوران کارپوریشن میں مبینہ کرپشن کی کہانیاں بھی باہر آنی شروع ہوگئی تھیں۔
آخر کار رواں برس محمد سجاد نے یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن کے چیئرمین کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب بائیس اگست دو ہزار بیس کو تحریر کردہ محمد سجاد کے خط کے مطابق انہوں نے لکھا کہ عمر لودھی نے ایم ڈی کی پوسٹ حاصل کرنے کے لئے چیٹنگ اور فراڈ کا سہارا لیا۔ کارپوریشن میں جمع کرائی جانے والی عمر لودھی کی سی وی کے مطابق ریٹیل انڈسٹری کے کمرشل، مرچنڈائزنگ اور سیلز شعبے میں انہوں نے اپنا تجربہ سات برس بیان کیا۔ تاہم لنکڈان سے حاصل کردہ عمرلودھی کے پروفائل کے مطابق ان شعبوں میں ان کا بالکل تجربہ نہیں۔ وہ صرف کسٹومر مارکیٹنگ، آفر مینجمنٹ، آن لائن سیلز اور مارکیٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اس طرح اپنی سی وی میں غلط بیانی کرکے عمر لودھی نے سراسر چیٹنگ کا ارتکاب کیا۔ جبکہ حیرت انگیز طور پرعمر لودھی کو ایم ڈی کی پوسٹ دیتے وقت کسی نے ان کے تجربے اور اس حوالے سے سی وی میں بیان کردہ اعداد و شمار کو چیک نہیں کیا۔ خط کے آخر میں محمد سجاد نے چیئرمین بورڈ سے درخواست کی کہ جلد از جلد اس معاملے کی تحقیقات کراکے حقائق کو سامنے لایا جائے اور انہیں اعتماد ہے کہ کرپشن فری نیو پاکستان کا نعرہ دینے والے وزیراعظم عمران خان پبلک سیکٹر آرگنائزیشن میں کسی ایسے فراڈ کو برداشت نہیں کریں گے۔ تاہم اس خط کو لکھے پانچ ماہ ہونے کو آئے۔ تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ۔ الٹا طاقت ور ایم ڈی نے اپنے چیئرمین بورڈ کو ہی بیرون ملک جانے پر مجبور کردیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورزکارپوریشن کے چیئرمین ذوالقرنین علی خان کا شمار عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق دونوں کا یہ تعلق اس لیے بھی مضبوط ہے کہ ذوالقرنین پی ٹی آئی مشرقی وسطیٰ کے بڑے فنانسر بھی ہیں۔ اور پارٹی کے لئے بھاری فنڈ دیتے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسی قربت کے نتیجے میں ذوالقرنین علی خان کو کارپوریشن کے بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ بطور چیئرمین انہوں نے اپنا ابتدائی دور شاندار طریقے سے گزارا۔ اس وقت یہ افواہیں عام تھیںکہ چیئرمین کا رسمی عہدہ رکھنے کے باوجود ذوالقرنین کارپوریشن کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں اوریہ کہ وزیراعظم انہیں ماضی کی خدمات کے بدلے نج کاری کے تحت یوٹیلٹی اسٹورزکارپوریشن فروخت کرنا چاہتے ہیں تاہم ایسا کچھ تو نہ ہوا۔ البتہ کارپوریشن کے معاملات میں چیئرمین ذوالقرنین کی مداخلت بڑھتی گئی۔ حتیٰ کہ اس میں رکاوٹ بننے والے ایم ڈی واجد علی سواتی کی چھٹی ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چیئرمین ذوالقرنین کے غیر قانونی مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
کارپوریشن کے اندرونی ذرائع کے مطابق چیئرمین بورڈ کا عہدہ علامتی یا رسمی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم سے قربت کے سبب ذوالقرنین قانونی طور پر طاقتور ایم ڈی واجد سواتی کی چھٹی کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن چیئرمین کو اصل چیلنج کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب موجودہ ایم ڈی عمر لودھی نے اپنا چارج سنبھالا۔ کیونکہ جن اہم شخصیات کی سپورٹ عمر لودھی کو حاصل ہے۔ ان کی بات وزیراعظم عمران خان بہت زیادہ مانتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب چیئرمین کی جانب سے ایم ڈی کے خلاف ایف آئی اے کو لکھے گئے خط کو لے کر دونوں میں اختلافات شدت اختیارکرگئے تھے تو وزیراعظم کو ذاتی طور پر اس ایشو کا نوٹس لینا پڑا تھا۔
بعد ازاں ذوالقرنین کو بیک فٹ پر جانا پڑا۔ انہیں خاموش کراکے باہر بھیج دیا گیا ہے۔ جبکہ ایم ڈی کے خلاف تحقیقات سے متعلق خط کو کوڑے دان میں پھینکا جاچکا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ رواں برس اپریل میں ایم ڈی عمر لودھی کے عہدے کی مدت پوری ہو رہی ہے۔ لیکن انہوں نے ملازمت میں توسیع کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ عمر لودھی اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کی کوششیں ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں۔ جب یوٹیلٹی اسٹورزکارپوریشن کا اپنا انٹرنل آڈٹ ایک بڑا برا مالی اسکینڈل سامنے لاچکا ہے۔ کارپوریشن کو پہنچنے والے اس ستّر کروڑ کے نقصان کے بارے میں بھی تحقیقات تاحال شروع نہیں کی جا سکی ہیں۔ تاہم اس ایماندارانہ آڈٹ کے ذمہ دار کا تبادلہ ضرور کردیا گیا ہے۔ (جاری ہے)