امت رپورٹ:
امریکہ میں پاکستان کا قومی اثاثہ روز ویلٹ ہوٹل بھی ہاتھ سے نکلنے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
ایک معاصر انگریزی اخبارکی رپورٹ کے مطابق مین ہٹن نیویارک میں قومی ایئرلائن کے قیمتی اثاثے کو برٹش ورجن جزیرے میں ایک عدالتی حکم کے تحت عارضی طورپرSEIZED (قبضے میں) کرلیا گیا ہے۔ جسے قانونی اصطلاح میں’’چارجڈ‘‘کہتے ہیں یہ حکم ریکوڈک کیس میں پاکستان پرعائد کیے جانے والے تقریباً چھ ارب ڈالر جرمانے کی وصولی کے لیے دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ریکوڈک بلوچستان میں سونے اور تانبے کے معاہدے کی تلاش سے متعلق ٹتھیان کمپنی سے ہونے والا معاہدہ منسوخ کرنے کے بعد عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان یہ کیس ہارگیا تھا۔
ٹھتیان کے معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ یہ کیس مختلف ادوارکی مختلف حکومتوں کی عدم دلچسپی یا پوری طرح سے توجہ نہ دینے کی وجہ سے خراب ہوا ہے تاہم اس کی زیادہ ذمے داری موجودہ پی ٹی آئی حکومت پرعائد ہوتی ہے کہ اس کے دور میں ہی ٹتھیان کمپنی پاکستان پرچھ ارب ڈالرکی خطیر رقم کا جرمانہ عائد کرنے میں کامیاب ہوئی اوراب اس جرمانے کی وصولی کے لیے بیرون ملک پاکستان کے قیمتی اثاثے خطرے میں پڑگئے ہیں۔
عالمی بینک کے بین الاقوامی مرکز برائے تنازعات سے متعلق عدالت آئی سی ایس آئی ڈی نے جولائی2019 میں پاکستان پر چھ ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔ جس کے فوری بعد ٹتھیان کمپنی نے اس جرمانے کی وصولی کے لیے ورجن آئی لینڈ میں ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا اوراس سلسلے میں بیرون ملک پاکستان کے اثاثے ضبط کرنے کی استدعا کی تھی تاہم خوش قسمتی سے پاکستان گزشتہ برس اس جرمانے کی ادائیگی روکنے سے متعلق حکم امتناعی لینے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگراس دوران موجودہ حکومت ٹتھیان کمپنی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کی بھرپور کوششیں کرتی تو کوئی نتیجہ برآمد ہونے کا امکان تھا لیکن ایسی نیم دلانہ کوششیں ہوئیں بھی تو بے ثمر رہیں اوراب بیرون ملک پاکستانی قیمتی اثاثے ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے اگرچہ جرمانے کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان نے حکم امتناعی لے رکھا ہے تاہم نیویارک کے روز ویلٹ اور پیرس کے اسکرائب ہوٹل کو عارضی کنٹرول میں لینے سے متعلق ورجن آئی لینڈ عدالت کے حالیہ فیصلے سے ان دونوں قیمتی اثاثوں کو الوداع کہنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
ثالثی عدالتوں کے کیس لڑنے والے لندن میں موجود ایک پاکستانی نژاد قانون دان کے مطابق براڈ شیٹ کو خطیر رقم کی ادائیگی کے بعد پاکستان سے تنازع رکھنے والے دیگر فریقین کو بھی ایک راستہ مل گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے لے کر موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے ذمے داران تک، سب کو معلوم تھا کہ ٹتھیان کمپنی نے 2011 میں اپنا کیس عالمی بینک سے منسلک ثالثی عدالت میں لے جانے کے بعد سے بیرون ملک پاکستانی اثاثوں پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ ان میں نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل اور پیرس کا اسکرائب ہوٹل سرفہرست ہیں۔ یہ دونوں ہوٹل ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی کے تحت پی آئی اے کی ملکیت ہیں۔
برٹش ورجن آئی لینڈ کورٹ نے کہا ہے کہ پی آئی اے انوسٹمنٹ لمیٹڈ ورجن آئی لینڈ کمپنی کے سو فیصد حصص کے ذریعے جرمانے کی رقم حاصل کرنے کے لیے ان دونوں پراپرٹیز کو عارضی طور پر سیزڈ کیا جائے گا۔ عدالت نے اس عارضی سیزڈ آرڈر پر سماعت پندرہ مارچ کو شیڈول کی ہے اس کیس کی سماعتیں جاری ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے آئی سی ایس آئی ڈی سے چھ ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ختم کرنے کی استدعا کی ہے اس حوالے سے حتمی فیصلہ رواں برس مئی میں متوقع ہے۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف روز ویلٹ ہوٹل ضبط ہونے کے خطرے سے دو چار ہے۔ اور دوسری جانب اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیل آئوٹ پیکیج کے طور پر مزید فنڈز مختص کیے جارہے ہیں۔ چار ماہ قبل اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ہوٹل کی فوری ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک سو بیالیس ملین ڈالر مختص کئے تھے۔ جبکہ گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ہوٹل کو مزید تقریباً ساڑھے پینتیس ملین ڈالرکا بیل آئوٹ پیکیج دینے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا۔
ذرائع کے بقول اگرچہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی جانب سے بھی ٹتھیان کے ساتھ عدالت سے باہر سمجھوتے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن یہ نیم دلانہ کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہوسکیں۔ اگرعدالت سے باہر ایسا کوئی سمجھوتہ ہوبھی جاتا ہے تو اس کے باوجود ایک بڑی رقم ادا کرنی پڑے گی کیونکہ ٹتھیان کمپنی کے وکلا نے اب دیکھ لیا ہے کہ بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے پاکستان پھنس چکا ہے۔ لہٰذا وہ کوئی بھی گھاٹے کا تصفیہ کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ یوں ممکنہ طور پر براڈ شیٹ کے بعد پاکستان کو مالی طور پر خدانخواستہ ایک اور بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔
مین ہٹن نیویارک کی پرائم لوکیشن 145 اسٹریٹ پر واقع روز ویلٹ ہوٹل جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان نے بیس سالہ لیز پر لیا تھا۔ بعد ازاں یہ بیس سالہ لیز اختتام پذیر ہونے پرنون لیگ کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان نے یہ ہوٹل خرید لیا تھا۔ اس ہوٹل میں نصف درجن سے زائد بار جانے والے ایک سیاست دان کے مطابق کسی بھی دور حکومت میں ہوٹل پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ ہر حکومت نے اس ہوٹل کو فروخت کرکے کمیشن بنانے کی کوشش کی۔ ان میں سے بعض کوششوں سے وہ ذاتی طور پر واقف ہیں اس حوالے سے ایک کوشش مشرف دور میں ہوئی تھی۔ جب توجہ نہ دینے پر ہوٹل کی حالت بے حد خداب ہوگئی تھی۔
مشرف دورحکومت میں تقریباً ڈھائی برس تک ہوٹل بند رہا۔ یوں مکمل طورپرخسارہ میں چلا گیا تھا۔ بعد ازاں ہوٹل کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہیں ہوسکی یہ وہ دور تھا جب پی آئی اے کا بھی برا وقت شروع ہوچکا تھا اورخیال کیا گیا تھا کہ قومی ایئرلائن کے خسارے کو کم کرنے کے لیے روز ویلٹ ہوٹل بیچ دیا جائے۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کے دور میں بھی مالی نقصان کے بوجھ سے دبی قومی ایئر لائن کو بچانے کے لیے روز ویلٹ ہوٹل فروخت کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم انتہائی کم قیمت پرفروخت کرنے کی کوششوں کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں تو پی پی حکومت نے اپنا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ نون لیگ کے دور حکومت میں ایک بار پھر روز ویلٹ ہوٹل کو فروخت کرنے یا اس کی نج کاری کی کوشش کی گئی لیکن بعد میں نون لیگ اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔
موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں جب وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کا دورکیا تو ان کے ہمراہ جانے والے زلفی بخاری نے روز ویلٹ ہوٹل کی فروخت سے متعلق معاملات ڈسکس کرنے کے لئے وزیراعظم کی ملاقات ٹرمپ کے داماد کوشنرسے کرائی تھی۔ کوشنراورزلفی بخاری میں گہری دوستی ہے بعد میں قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے سامنے حکومتی نمائندے نے اعتراف کیا تھا کہ ٹرمپ روز ویلٹ ہوٹل خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تاہم ان خبروں کے بعد کے زلفی بخاری ارزاں قیمت پر روز ویلٹ اپنے دوست کوشنر کو فروخت کرکے کمیشن کمانا چاہتے ہیں۔ یہ معاملہ لٹک گیا تھا۔
موجودہ حکومت تاحال روز ویلٹ ہوٹل کو فروخت یا اس کی نج کاری میں تو کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ تاہم ورجن آئی لینڈ عدالت کی جانب سے ہوٹل کی عارضی ضبطگی کا فیصلہ ضرور آگیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب تقریباً پچھلے تین ماہ سے روز ویلٹ ہوٹل ایک بار پھر تزئین وآرائش کے نام پر بند پڑا ہے۔