امت رپورٹ:
برطانوی عدالت نے فراڈ اور منی لانڈرنگ کیس میں ابراج گروپ کے بانی اور وزیراعظم عمران خان کے دوست عارف نقوی کو امریکہ حوالے کرنے کی اجازت دیدی۔
عارف نقوی کی امریکہ حوالگی کا آخری مرحلہ باقی رہ گیا ہے یعنی وہ مجسٹریٹ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں۔ امریکہ میں گرفتارعارف نقوی کے پارٹنر مصطفیٰ عبدالودود کی مین ہٹن عدالت میں سماعتوں کو کورکرنے والے نیویارک میں موجود’’امت‘‘ کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ عارف نقوی کی امریکہ حوالگی کی صورت میں پاکستانی سیاست میں بھی بھونچال آسکتا ہے کیونکہ اس ٹرائل کے دوران اہم انکشافات کا پینڈورا باکس کھل جائے گا جس میں یہ شامل ہوگا کہ عارف نقوی نے فراڈ کی رقم میں سے کس کس کو فنڈنگ کی۔
اس ذریعے نے انکشاف کیا کہ امریکہ میں گرفتارابراج گروپ کے منیجنگ پارٹنر مصطفیٰ عبدالودود، عارف نقوی کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ قبل ازیں مصطفیٰ عبدالودود نے مین ہٹن عدالت میں اپنی پیشی کے موقع پر قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی تھی تاہم جب ان کے وکلا نے مشورہ دیا کہ جرم سے انکار کرنے کے بجائے گلٹی تسلیم کیے جانے کی صورت میں ان کی ممکنہ سزا میں کمی ہوسکتی ہے تو وہ یہ مشورہ مان کر وعدہ معاف گواہ بن گئے۔
مصطفیٰ عبدالودود کو دو ہزار انیس میں نیویارک کے ایک ہوٹل سے گرفتارکیا گیا تھا۔ جہاں وہ اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس سے ایک روز قبل امریکی درخواست پر برطانیہ سے عارف نقوی کی گرفتاری عمل میں آچکی تھی تاہم عارف نقوی کی امریکہ حوالگی کا معاملہ قریباً پونے دو برس سے برطانوی مجسٹریٹ کورٹ میں چل رہا تھا۔ جس نے اب عارف نقوی کے وکلا کے دلائل مسترد کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کو بانی ابراج کی امریکہ حوالگی کی اجازت دے دی ہے۔
لندن اور نیویارک میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے یہ دھماکہ خیز انکشاف بھی کیا ہے کہ امریکی ایف بی آئی عارف نقوی کے بہتّر سے زائد بینک اکائونٹس تک رسائی بھی حاصل کرچکی ہے۔ ایف بی آئی نے بڑی حد تک یہ چھان بین کرلی ہے کہ ان بینک اکائونٹس کے ذریعے کن افراد یا کمپنیوں کو رقوم منتقل کی گئیں۔ امریکہ میں ٹرائل شروع ہونے کی صورت میں ان بینک اکائونٹس سے رقوم حاصل کرنے والے بھی ریڈار پر آجائیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آئی نے ابراج گروپ کے خلاف فراڈ اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران عارف نقوی کے بینک اکائونٹس تک عدالتی اجازت سے رسائی حاصل کی تھی۔ ایف بی آئی نے ان تمام بینک اکائونٹس کی ٹرانزکشن کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس بینک اکائونٹ سے دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کی انتخابی مہم چلانے کے لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو رقم بھیجی گئی تھی وہ بھی ایف بی آئی ٹریس کرچکی ہے۔
یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ لندن میں مقیم عارف نقوی کا بیٹا اپنے ایک قریبی واقف کار سے یہ تذکرہ کرچکا ہے کہ ان کے والد نے تحریک انصاف کی انتخابی مہم کے لیے خطیر رقم دی تھی اوراس کے عوض اقتدار میں آنے کی صورت میں عارف نقوی کو وزیر خزانہ بنانے کی پیشکش کی گئی تھی۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کے اہم رہنما کو جو اس وقت وفاقی وزیر ہیں، پارٹی چیئرمین نے عارف نقوی کی طرف سے بھیجے جانے والے ایک ارب روپے دیے تھے تاکہ الیکشن کمپین پر خرچ کئے جاسکیں۔ جب اس پارٹی رہنما نے پارٹی چیئرمین سے دریافت کیا کہ یہ رقم کس نے دی ہے تو چیئرمین پارٹی نے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ دبئی میں عارف نقوی کے کرکٹ کلب کی کبھی کوچنگ کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا انتخابی مہم کے لیے اسی طرف سے انہیں فنڈ آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق امریکی ایف بی آئی نے عارف نقوی کے بینک اکائونٹس کی اب تک جو چھان بین کی ہے۔ اس میں وہ اکائونٹ شامل ہے۔ جس کے ذریعے پی ٹی آئی چیئرمین کو ایک ارب روپے دیئے گئے تھے۔
ادھرپی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کی چھان بین کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی کے بند کمرہ اجلاسوں کی کارروائی سے واقف معتبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ عارف نقوی کے جس بینک اکائونٹ سے تحریک انصاف کو فنڈنگ ہوئی۔ وہ ان تیئیس بینک اکائونٹس میں شامل ہے۔ جنہیں تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کی بھرپور کوشش ہے کہ ان بینک اکائونٹس کو پبلک نہیں کیا جائے۔
یاد رہے کہ تیئیس بینک اکائونٹس کی اسکروٹنی کے لئے کمیٹی اب تک تہتر سے زائد ان کیمرہ اجلاس کر چکی ہے۔ جس کی تفصیلات میڈیا کو فراہم نہیں کی جاتیں۔ ذرائع کے مطابق ایسی ہی ایک میٹنگ کے موقع پر درخواست گزار کی جانب سے اسکروٹنی کمیٹی سے کہا گیا کہ وہ پی ٹی آئی کے خفیہ بینک اکائونٹس کی تفصیلات پبلک نہیں کر رہی۔ حتیٰ کہ مدعی کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا جارہا۔ لیکن جب امریکی عدالت میں عارف نقوی کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کا کیس چلے گا اور تمام معاملہ دنیا کے سامنے کھل جائے گا تو بطور ایک آئینی ادارہ آپ کی کیا توقیر رہ جائے گی۔ یہاں ایک سرے پر تو آپ نے گانٹھ لگادی ہے۔ لیکن دوسرے سرے (امریکی عدالت) پر گانٹھ کیسے لگاپائو گے؟
اس اہم کیس کی پس پردہ سرگرمیوں سے واقف برطانیہ میں موجود اہم ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا کہ عارف نقوی کی امریکہ حوالگی کے ممکنہ مضمرات سے واقف طاقتور شخصیات نے عارف نقوی کو بچانے کے لئے بہت ہاتھ پیر مارے۔ برطانیہ میں بارسوخ اورمال دار خاندان کے ذریعے امریکی وائٹ ہائوس تک رسائی کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن برطانیہ اورامریکہ کے آزاد عدالتی نظام کے باعث ان کوششوں کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے حتیٰ کہ مہنگے ترین وکلا بھی عارف نقوی کو اب تک بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بانی ابراج گروپ عارف نقوی کو فراڈ، جعلسازی اور منی لانڈرنگ سمیت سولہ الزامات کا سامنا ہے۔ امریکہ میں ٹرائل چلنے کی صورت میں انہیں تین سو برس تک سزا ہو سکتی ہے۔ اور ساتھ ہی ان سے مالی فوائد حاصل کرنے والے بھی بے نقاب ہوں گے۔
عارف نقوی کی امریکہ حوالگی سے متعلق فیصلے کے قانونی پہلوئوں کو جاننے کے لیے ’’امت‘‘ نے برطانیہ کے معروف قانون دان بیرسٹر امجد ملک سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’’مجسٹریٹ کورٹ کے فیصلے کے خلاف عارف نقوی کے وکلا لندن ہائی کورٹ اوراس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل کر سکتے ہیں۔
مجسٹریٹ کورٹ سے فیصلہ خلاف آجانے کے بعد اب عارف نقوی کے وکلا کو چودہ سے اٹھائیس دن کے اندر اپیل کرنی ہے۔ کورونا اور دیگر قانونی مراحل کے سبب لندن ہائی کورٹ میں اپیل کا فیصلہ آنے میں کم و بیش بارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔ لندن ہائی کورٹ میں اپیل مسترد ہوگئی، تو عارف نقوی کو سپریم کورٹ میں جانے کا حق حاصل ہوگا۔ سپریم کورٹ میں بھی اپیل کے فیصلے میں تقریباً مزید بارہ ماہ لگیں گے‘‘۔
اس سوال پر کہ مجسٹریٹ کورٹ کے فیصلے کے بعد عارف نقوی کی امریکہ حوالگی کس قدر یقینی ہوگئی ہے؟ بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ عارف نقوی کے وکلا نے اپنے کلائنٹ کی امریکہ حوالگی رکوانے کے لیے مجسٹریٹ کورٹ میں یہ دلائل دیئے کہ انہیں امریکی جیل میں ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران چھ ایکسپرٹس نے ویڈیو لنک کے ذریعے امریکی جیلوں کی حالت زار بھی بیان کی۔
وکلا کا اصرار تھا کہ عارف نقوی کو امریکی جیل بھیجنا ان کے انسانی حقوق سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ امریکی جیلوں کی حالت اس قابل نہیں کہ عارف نقوی وہاں ممکنہ تین سو برس تک کی طویل قید کاٹ سکیں۔ تاہم مجسٹریٹ کورٹ نے وکلا کے ان دلائل کو مسترد کر دیا۔
بیرسٹر امجد ملک کے بقول کیونکہ یہ کوئی سیاسی اور ملکی سلامتی یا پھر دہشت گردی سے متعلق کیس نہیں کہ جس میں ملزم کو اعتراف کرانے کے لئے واٹر بورڈنگ یا اس جیسے دیگر تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اب لندن ہائی کورٹ میں اپیل کے موقع پر بھی عارف نقوی کے وکلا کے پاس آخری آرگومنٹ یہی ہوگا جو وہ مجسٹریٹ کورٹ میں دے چکے ہیںکہ امریکی جیلوں کی حالت زار اور کرمنلز کے درمیان عارف نقوی طویل سزا نہیں کاٹ سکیں گے۔ ذہنی دبائو کے سبب وہ خود کشی بھی کرسکتے ہیں۔ لہٰذا انسانی حقوق کے تناظر میں اس حوالگی کو روکا جائے۔
بیرسٹر امجد ملک کے مطابق چونکہ ان دلائل کو مجسٹریٹ کورٹ مسترد کرچکی ہے لہٰذا لندن ہائی کورٹ یہ دیکھے گی کہ مجسٹریٹ کورٹ کے جج نے کس گرائونڈ پر یہ دلائل مسترد کیے۔ ان میں کوئی قانونی موشگافی تو نہیں۔ کیا مجسٹریٹ کورٹ نے تمام قانونی نکات کو فالو کیا اورکیا عارف نقوی کا کیس امریکہ میں ہی چلانا ضروری ہے۔ امریکی جیلیں کیا انسانی حقوق کے مطلوبہ معیار پر پورا اترتی ہیں۔ ان جیلوں میں عارف نقوی کو صحت کی کیا سہولیات میسر ہوسکتی ہیں اور ان کی جان کو تو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ ان تمام معاملات کو دیکھ کر لندن ہائی کورٹ اپنا فیصلہ جاری کرے گا۔
بیرسٹر امجد ملک نے اتفاق کیا کہ عارف نقوی کا کیس امریکہ میں چلنے کے نتیجے میں ایک بڑا پینڈورا باکس کھل سکتا ہے۔ چونکہ یہ ٹرائل کھلی عدالت میں ہوگا۔ جج کے سامنے تمام شواہد پیش ہوں گے۔ بالخصوص منی لانڈرنگ کے زمرے میں آنے والے شواہد پر رقوم وصول کرنے والے افراد کو بھی شوکاز ہوسکتا ہے تاہم اس طرح کا معاملہ سامنے آنے پرالگ سے انویسٹی گیشن ہوگی۔