فائل فوٹو
فائل فوٹو

سینیٹ الیکشن۔ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے بکائو گھوڑوں پر نظریں گاڑھ لیں

امت رپورٹ:
سندھ میں سینیٹ کی نشستوں کے حوالے سے تمام پارٹیوں نے اپنی Calculation (حساب کتاب) کرلی ۔ نمبر گیم کے مطابق صوبے میں مجموعی طورپرسینیٹ کی گیارہ نشستوں میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی کے حصے میں آرہی ہیں تاہم صوبے کی حکمراں پارٹی دو اضافی نشستوں کی خواہش مند ہے۔ اس کے لیے تقریباً وہی جال بچھانے کی کوشش کی جارہی ہے، جو دوہزار اٹھارہ کے گزشتہ سینیٹ الیکشن کے موقع پر ایم کیو ایم کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ذرائع نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں ایم کیو ایم کے ارکان نے اپنے ریٹ انتہائی نچلی سطح پر گرادیئے تھے۔ مجموعی طورپرایم کیو ایم کے دو درجن سے زائد ارکان نے اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔

اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق اس وقت سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد پچاس تھی۔ اس لحاظ سے سندھ سے ایم کیو ایم کی سینیٹ کی دو سیٹیں یقینی تھیں جبکہ جوڑ توڑ یا بارگیننگ کرکے ایم کیو ایم صوبے سے سینیٹ کی تین نشستیں بھی حاصل کرسکتی تھی کیونکہ صوبے میں اس وقت ایک سینیٹر کو تقریباً بیس ارکان کے ووٹ درکار تھے تاہم اس کے برعکس اسے صرف ایک جنرل نشست مل سکی تھی جبکہ پیپلز پارٹی نے پانچ جنرل، دو ٹیکنوکریٹ، دو خواتین اور ایک اقلیتی نشست سمیت مجموعی طور پر سندھ سے دس سینیٹ سیٹیں حاصل کرلی تھیں۔

اگرچہ صوبائی ایوان میں اس وقت پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد چورانوے تھی۔ اس لحاظ سے سندھ میں اتحادیوں کے تعاون اور جوڑ توڑ کے بعد بھی پی پی پی کے حصے میں بمشکل سینیٹ کی چھ سے سات نشستیں آنی تھیں تاہم ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے ارکان کو خرید کر پیپلز پارٹی نے مزید تین سے چار سیٹوں کا اضافہ کرلیا تھا۔ ان میں دو خواتین اور دو ٹیکنوکریٹس کی نشستیں تھیں۔

ایم کیو ایم ارکان کی اتنی کم قیمت پر فروخت ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھاکہ دراصل اس وقت ایم کیو ایم بدترین اندرونی انتشار کا شکار تھی۔ الطاف حسین کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹایا جاچکا تھا۔ صوبائی اسمبلی میں موجود پچاس ارکان تین حصوں ایم کیو ایم پاکستان (بہادر آباد)، ایم کیو ایم پی آئی بی گروپ (فاروق ستار) اور پاک سر زمین پارٹی میں تقسیم ہوچکے تھے۔ سب اپوزیشن میں بیٹھے تھے لہٰذا ترقیاتی فنڈز کا بھی آسرا نہیں تھا۔ پھر یہ کہ تین چار ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے تھے۔

بیشتر ارکان کو یقین تھا کہ مستقبل میں انہیں دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا۔ لہٰذا جب ان سے بھائو تائو کے لئے رابطہ کیا گیا تو بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق وہ انتہائی ارزاں قیمت پر اپنا ووٹ بیچنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق کسی ارکان کو پندرہ لاکھ اور کسی کو انتہائی اصرار پر بیس لاکھ روپے تھما دیے گئے تھے۔

ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں اپنے طور پر جو انکوائری کی تھی، ان میں پندرہ سے سولہ ارکان کی شناخت ہوسکی تھی تاہم شوکاز نوٹس صرف چھ ارکان کو بھیجے گئے تھے۔ جن میں بدنام دہشت گرد فاروق دادا کی بیوی شازیہ فاروق، نائلہ منیر، ہیر سوہو، سمیتا افضل، ناہید بیگم اور سلیم بندھانی شامل تھے تاہم فاروق ستار گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک ذریعہ کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے نصف ارکان پیسوں کے عوض بک گئے تھے۔ جبکہ نصف کو زبردستی وفاداریاں تبدیل کرائی گئی تھیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ گزشتہ سینیٹ الیکشن کی طرح اس بار بھی کوٹے سے زیادہ نشستیں حاصل کرلی جائیں۔ تاہم اس بار صوبے کی حکمراں پارٹی کی نظریں ایم کیو ایم سے زیادہ پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی پر ہیں۔ کیونکہ پی پی قیادت پی ٹی آئی کراچی میں ہونے والی گروپ بندی سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کراچی میں اس وقت جو دو واضح گروپ ہیں، ان میں سے ایک کو گورنر سندھ عمران اسماعیل کی سپورٹ حاصل ہے اور دوسرا گروپ فردوس شمیم نقوی کی سرپرستی میں چل رہا ہے تاہم پہلا گروپ زیادہ طاقت ور ہے کہ عمران اسماعیل پارٹی چیئرمین عمران خان سے قریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں فردوس شمیم نقوی کو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن سے ہاتھ دھونا پڑے اوران کی جگہ حلیم عادل شیخ لے چکے ہیں۔فردوس شمیم نقوی نے رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں اپنی پوزیشن سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کا فوکس پی ٹی آئی کے ان ارکان پر ہے،جو کراچی چیپٹر کی قیادت سے ناراض ہیں۔ ایسے دس سے بارہ پی ٹی آئی ارکان کے ساتھ پیپلز پارٹی رابطے میں ہے۔ ان ارکان کو اندازہ ہے کہ اگلی بار انہوں نے منتخب نہیں ہونا پھر اس پر بھی ابھی سوالیہ نشان ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جن ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے لیے فی کس پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ کا اعلان کیا ہے، ان میں سندھ کے ارکان صوبائی اسمبلی شامل ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ایم این ایز کو تو وفاقی حکومت فنڈز دے سکتی ہے جبکہ پنجاب اور خیبر پختون میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے۔ لہٰذا چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ان صوبائی حکومتوں کے ذریعے اپنے ارکان کو فنڈز دلاسکتے ہیں تاہم سندھ میں اس حوالے سے پی ٹی آئی ارکان ابھی اندھیرے میں ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس سیناریو کو مد نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے مطلوبہ ارکان توڑنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن اس وقت چونکہ پی ٹی آئی ارکان صوبائی اسمبلی کو ایم کیو ایم کے ارکان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں، لہٰذا ماضی کی طرح فی کس پندرہ سے بیس لاکھ کے بجائے چالیس سے پچاس لاکھ روپے کی پیشکش کی جائے گی ۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے کوٹے سے زیادہ مزید دو نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔

ایک سو اڑسٹھ ارکان پر مشتمل سندھ اسمبلی کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے ایم پی ایزکی مجموعی تعداد ننانوے ہے۔ (ان میں سے صوبائی اسمبلی کی دو سیٹوں پر ضمنی الیکشن اگلے ماہ ہونے والے ہیں۔ یہ دونوں سیٹیں پی پی امیدواروں کی اموات کے سبب خالی ہوئی تھیں۔ جہاں سے اس کے ہارنے کے امکانات خاصے معدوم ہیں) ۔

اس بار سندھ میں سینیٹر بننے کے لیے فی کس تقریباً اکیس اعشاریہ ایک ارکان کے ووٹ درکار ہیں۔ یوں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ننانوے ارکان ہوجائیں گے۔ لہٰذا اس کے کوٹے میں آنے والی سینیٹ کی جنرل نشستوں کی تعداد چار بنتی ہے۔ جبکہ اپنے تیس ارکان صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں پی ٹی آئی ایک نشست حاصل کرسکے گی۔ کیونکہ ذرائع کے بقول باقی کی آٹھ سے زائد نشستیں پی ٹی آئی اپنے اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس امیدوار کو دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

جی ڈی اے کے سندھ اسمبلی میں چودہ ارکان ہیں۔ اور اسے اپنے ایک سینیٹر کو منتخب کرانے کے لیے سات سے آٹھ ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے اکیس ارکان صوبائی اسمبلی ہیں اور وہ بھی آسانی سے ایک سیٹ نکال سکتی ہے۔ یوں سات جنرل سیٹوں کی مجوزہ تقسیم کے بعد خواتین کی دو اور ٹیکنوکریٹ کی دو یعنی مجموعی طور پر چار سیٹیں بچتی ہیں۔

ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی ان چاروں نشستوں کو حاصل کرکے اپنی سیٹوں کی مجموعی تعداد آٹھ کرنا چاہتی ہے اگر پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے آپس میں اتحاد کرلیتے ہیں تو مل کر وہ ٹیکنوکریٹ کی ایک سیٹ نکال لیں گے بصورت دیگر چاروں سیٹیں پیپلز پارٹی کی جھولی میں جاگریں گی۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے ساتھ اسی سلسلے میں رابطے کیے جارہے ہیں کہ انہیں توڑ کر مطلوبہ ہدف پورا کرلیا جائے۔ اگر یہ ٹاسک پورا نہ ہوسکا تو پھر بھی نمبر گیم کے مطابق پی پی کی خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی دو سیٹیں پکی ہیں۔ یعنی سندھ اسمبلی میں اپنے ارکان کے حساب سے مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کی چھ سیٹیں بنتی ہیں اور وہ مزید دو سیٹوں کے لیے زور لگارہی ہے۔