رپورٹ: خالد زمان تنولی
کراچی: سندھ چائلڈ میرج ایکٹ‘ تفتیشی پولیس عدالت کی انکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوگئی۔
مدعی کی جانب سے کم عمری ثابت کرنے کے لیے ب فارم مہیا کیے جانے کے باوجود تھانہ زمان ٹائون کے تفتیشی افسر صلاح الدین نے جعلسازی اور چالاکی سے دستاویز تیار کروا کر 14 سالہ بچی کی عمر18 سال ثابت کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 9 دسمبر2020 کو کراچی کے تھانہ زمان ٹائون میں روبی نامی ایک ایسی ہی متاثرہ خاتون نے درخواست جمع کرائی کہ اس کی بیٹی رخسانہ جس کی عمر 14 سال ہے کی اپنے بیٹے سے شادی کرادی ہے۔
خاتون نے درخواست میں حوالہ دیا کہ ملزم نے قانون کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے بچی کو اغوا کرلیا اور اپنے بیٹے سے شادی رچادی۔ خاتون جب فریاد لے کر تھانے پہنچی تو تھانہ زمان ٹائون کی پولیس 10 روز تک ٹال مٹول سے کام لیتی رہی اور ایس ایچ او زمان ٹائون کا کہنا تھا کہ سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کا اطلاق پسند کی شادی کرنے والے بچوں پر نہیں ہوتا۔
تاہم 10 روز گزرنے کے بعد شدید دبائو پر جب ایف آئی آر درج کی گئی تو وہ درخواست کے متن سے قطعا مختلف تھی اور اس ایف آئی آر میں نامزد ملزمان کیخلاف کم عمری میں شادی کے بجائے زنا کا مقدمہ درج کیا گیا۔
اگلے مرحلے میں جب تفتیش تھانے کے ایس آئی او خالد کھرل کے سپرد کی گئی تو اس نے یہ تفتیش اپنے معتمد خاص اور بدنام زمانہ تفتیشی افسر صلاح الدین کے حوالے کردی۔
تفتیشی افسر اے ایس آئی صلاح الدین مدعی خاتون اور اس کے بھائی کو فون پر مسلسل دھمکیاں دیتا رہا کہ وہ تھانے آکر ثابت نہ کرسکے تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔
تفیتشی افسر کی جانب سے دھمکیاں ملنے اور علاقے کے غنڈے پولیس مخبروں کی جانب سے آوازیں کسے جانے کے باعث بچی کے لواحقین شدید خوفزدہ اور تھانے جانے سے گریز کرتے رہے جبکہ تفتیشی افسر نے ایک حکومتی پارٹی کے کارکنوں کی مدد سے مدعی خاتون کو زبردستی تھانے بلالیا اور 50ہزار روپے کی وہ رقم جو بچی ساتھ لے گئی تھی واپس دلانے کی یقین دہانی کروا کر صلح پر مجبور کردیا، تاہم ایس آئی او خالد کھرل کی ضمانت پر کہ ملزم 11 جنوری 2021 تک وہ رقم مدعی خاتون کو واپس دلوادے گا اور ملزمان خاتون کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے خاتون کو قائل کرلیا گیا۔
بعد ازاں 11 جنوری 2021 کے بعد ملزم نے بتایا کہ وہ اب مدعی خاتون کو رقم ادا نہیں کرے گا کیونکہ وہ یہ رقم پولیس کارروائی کے دوران خرچ کرچکا ہے اور اب عدالت کی جانب سے اس نکاح کو قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔
متاثرہ خاتون نے اسپیکر سندھ اسمبلی، وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں کہ پولیس نے اس کیس میں ملزم سے کتنے پیسے لیے اور میری 14 سالہ بیٹی کا جعلی حلف نامہ پولیس نے کیسے تیار کروایا اور ب فارم سمیت تمام حقائق جاننے کے باوجود کیوں درست مقدمہ درج نہیں کیا اور ایس آئی او تھانہ زمان ٹائون خالد کھرل اور تفتیشی افسر اے ایس آئی صلاح الدین مدعی کو کیوں دھمکیاں دیتے رہے جس کی ریکارڈنگ بھی مدعی کے پاس موجود ہے۔ مدعی خاتون نے سندھ ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ عدالتی تشریح کے باوجود پولیس کو قانون کے مطابق کارروائی نہ کرنے کے خلاف از خود نوٹس لے کر ایسے غریب لوگوں کو تحفظ فراہم کرے جو پولیس کی مدد لینے کے لیے رشوت کا سہارا نہیں لے سکتے بلکہ ملزمان کی دانستہ معاونت کرنے پر پولیس افسران کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جائے۔
یاد رہے حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے ایک کم عمر بچی کی شادی کو سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت نہ صرف غیر قانونی قرار دیا بلکہ نکاح کرنے والے شخص، نکاح خواں، جسٹس آف پیس اور گواہان کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا بلکہ سندھ ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں گواہان کے پیش نہ ہونے پر انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے۔سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے ذریعے سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کی بہترین تشریح کی گئی ہے کیونکہ اس عدالتی فیصلے سے یہ تاثر بھی ختم ہوگیا کہ یہ قانون محض والدین کی رضامندی سے ہونے والی کم عمری کی شادیوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس قانون کا اطلاق پسند کی شادی کرنے والے کم عمر بچوں پر بھی ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ سندھ پولیس کی جانب سے اس حوالے سے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ سندھ چائلڈ میرج ایکٹ کا اطلاق پسند کی شادی کرنے والے بچوں پر نہیں ہوتا۔