رپورٹ: نجم الحسن عارف
ڈینیئل پرل کیس میں بلاجواز اٹھارہ برس قید تنہائی میں گزارنے والے عمر سعید شیخ اور دیگر افراد کا نام حکومت نے فورتھ شیڈول میں ڈالنے کا اشارہ دیا ہے۔ عمر شیخ کی رہائی کب تک ممکن ہے؟ نیز ان کو سرکاری ریسٹ ہائوس میں رکھنے کے دوران فیملی ممبران کی ان سے ملاقات کا کیا طریقہ کار ہوگا۔ اور یہ کہ عمر شیخ کی بلاجواز قید اور ان کے اہلخانہ کو اذیت دینے پر حکومت کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ ان تمام سوالات کے جواب جاننے کیلئے ’’امت‘‘ نے عمر سعید شیخ کے وکیل رائے بشیر احمد سے بات چیت کی۔ جو قارئین کی نذر ہے۔
رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ کہتے ہیں ’’میری دانست میں عمر سعید شیخ کو جیل میں مزید رکھنے کا کوئی قانونی جواز نہیں بچا۔ ایک جانب سپریم کورٹ نے رہائی کا حکم دے دیا ہے اور دوسرا حکم فوری طور پر انہیں جیل سے نکال کر سرکاری ریسٹ ہائوس میں منتقل کرنے کا دیا ہے۔ اگرچہ عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں دیئے گئے اپنے حکم میں یہ لکھا تو نہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ سرکاری ریسٹ ہائوس میں منتقل کرنے کی وجہ شاید عمر سعید شیخ کو امریکی بلیک واٹر یا سی آئی اے کی طرف سے ممکنہ طور پر ٹارگٹ کیے جانے سے بچانا ہے۔ اس لیے سرکاری ریسٹ ہائوس میں عمر سعید شیخ کو منتقل کرنے کا مقصد انہیں نظربند کرنا نہیں ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ انہیں کس ادارے کے ریسٹ ہائوس میں رکھا جائے گا۔ تاہم بظاہر امکان یہی ہے کہ سول ادارے کے ریسٹ ہائوس میں ہی رکھا جائے گا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ جس ریسٹ ہائوس میں بھی رکھا جائے۔ حفاظتی انتظامات فول پروف ہونے چاہئیں‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’میں نہیں سمجھتا کہ عدالتی فیصلے پر عمل میں تاخیرکا جواز ہو سکتا ہے۔ تاہم اس وقت تک رہائی میں بڑی وجہ امریکی دبائو ہے۔ وفاقی حکومت نے امریکی دبائو کے بعد ہی عمر سعید شیخ اور دیگر کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کا اشارہ دیا ہے۔ اسی دوران دو دن پہلے عدالت نے ریسٹ ہائوس منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر جمعرات کے روز تک ضرور عمل ہوجانا چاہیے۔ تاہم مجھے ابھی منتقل کیے جانے کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ عدالتی حکم نامے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ریسٹ ہائوس میں عمر شیخ کے اہلخانہ ان سے مل سکیں گے۔ صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک اہلخانہ ریسٹ ہائوس میں عمر سعید شیخ کے ساتھ ٹھہر سکیں گے۔ نیز عمر شیخ کا اٹھارہ سالہ بیٹا جو اب تک اپنے باپ کی شفقت سے محروم رکھا گیا ہے۔ وہ اور عمر شیخ کی اہلیہ سرکاری ریسٹ ہائوس میں مسلسل ان کے ساتھ رہ سکیں گے‘‘۔ ایک اور سوال پر رائے بشیر احمد نے کہا ’’میرا یہی خیال ہے کہ عدالت اپنے فیصلے کے ساتھ کھڑی ہے۔ عدالت نے عمر سعید شیخ کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عمل کرے اور آئین میں دیئے گئے اپنے شہریوں کے حقوق میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس وقت تو یہ صورت بنی ہوئی ہے کہ امریکی دبائو آڑے ہے۔ ورنہ عمر شیخ کی رہائی ہو چکی ہوتی۔ امریکی دبائو کو قبول کرتے ہوئے اپنے شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق میں رکاوٹ پیدا کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمر سعید شیخ کو جیل میں رکھنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے عدالت عظمیٰ اپنے فیصلے پر عمل کرائے گی۔ جہاں تک سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کیے جانے کا سوال ہے۔ یہ اپیل سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد ہی دائر کی جا سکے گی۔ ایک مرتبہ سندھ کی صوبائی حکومت نے کوشش کی۔ مگر اسے واپس کر دیا گیا۔ جب عدالت عظمیٰ کا تفصیلی فیصلہ آجائے گا تو اس کے بعد ہی ریویو کا عدالتی پراسس شروع ہوگا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ریویو میں حکومت کی درخواست کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریویو میں بہت کم گنجائش ہوتی ہے کہ عدالت کا اپنا فیصلہ تبدیل ہو جائے۔ دوسری بات یہ کہ اس کیس میں تو بہت لمبی بحث ہو چکی ہے۔ تین ماہ تک دلائل ہوتے رہے۔ ہر کسی کی بات عدالت نے پوری تفصیل کے ساتھ سنی۔ اس لیے کوئی ایسی بات ہوتی جس کی بنیاد پر فیصلہ مختلف ہو سکتا تو وہ پہلے ہی سامنے آچکی ہوتی‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں رائے بشیراحمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’’میری محمود اے شیخ کے ساتھ اس معاملے پر بات ہوئی ہے کہ عمر سعید شیخ کو بلاجواز اٹھارہ برسوں تک جیل میں قید رکھنے، انہیں اور ان کے اہل خانہ کو طویل عرصے تک اذیت سے دو چار رکھنے کے خلاف ہرجانے کی درخواست دائر کی جائے۔ تاہم ابھی اس معاملے کا مختلف قانونی پہلوئوں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ محمود اے شیخ مجھے جلد اس بارے میں آگاہ کریں گے۔ اسی طرح اگر حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل نہ کیا تو یہ توہین عدالت ہو گی۔ ہم اس پر توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر سکتے ہیں۔ ان تمام پہلوئوں پر غور جاری ہے۔ مناسب وقت پر تیاری کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا۔ ہرجانے کی مجوزہ رقم کروڑوں روپوں سے اربوں روپوں تک ہو سکتی ہے۔ عدالتی فیصلے پر جلد سے جلد عمل ہونا چاہیے اور عمر سعید شیخ کو رہا کیا جانا چاہیے‘‘۔ عمر سعید شیخ کا نام وفاقی حکومت کی طرف سے فورتھ شیڈول میں ڈالے جانے کے امکان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ یہ اشارے امریکی دبائو کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔ جب ایسا ہو گا تو اس کے قانونی جواز کو چیلنج کرنے کا حق موجود ہوگا‘‘۔