امت رپورٹ:
اسٹیل مل کے ہزاروں ملازمین جہاں بے روزگار ہوچکے ہیں اور مزید ہونے والے ہیں۔ وہیں لگ بھگ تین ہزار ورکرز چھت سے محروم ہوجائیں گے۔
اسٹیل مل کے تقریباً ساڑھے چار ہزار ملازمین کو فارغ کیا جاچکا ہے جبکہ مزید ساڑھے تین ہزار کے قریب ملازمین کی برطرفی (MENT RETRENCH) کا لیٹر جاری کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ متاثر وہ ملازمین ہوں گے جو اسٹیل مل کی کالونی میں رہائش پذیر ہیں اوران کے پاس اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں۔
اٹھارہ ہزار چھ سو ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلی اسٹیل مل کی رہائشی کالونی (ٹائون شپ) آٹھ ہزارایک سو چھبیس ایکڑ اراضی پر واقع ہے۔ اسٹیل مل کی رہائشی کالونی کے معاملات دیکھنے والے ایک سے زائد افسروں نے بتایا کہ گلشن حدید فیز ون، فیز ٹو اورآگے لنک روڈ تک ساری اراضی اسٹیل مل کی رہائشی کالونی کے لیے رکھی گئی تھی۔ ان میں گلشن حدید فیز ون اورٹو بہت پہلے بن گیا تھا۔ فیز تھری میں پلاٹ الاٹ ہو چکے ہیں۔ جبکہ فیز فور بھی منظورکیا جاچکا ہے۔ گلشن حدید فیز ون اور فیزٹو میں اس وقت پانچ سو گز پر تعمیر مکان کی قیمت اٹھارہ سے بیس کروڑ روپے ہے۔
انیس سو چھیاسی میں اسٹیل مل نے گلشن حدید فیز ون میں اپنے ملازمین کو پانچ سو گزپرتعمیر مکان پانچ لاکھ روپے میں دیا تھا۔ تین سو گز پر تعمیر مکان دو لاکھ روپے۔ دو سو گز پر تعمیر مکان دو لاکھ روپے اورایک سو بیس گزپرتعمیر مکان ایک لاکھ بیس ہزار روپے میں دیا گیا تھا۔ اسی طرح سن انیس سو نواسی سے دو ہزار دو تک کے دوران گلشن حدید فیز ٹو میں تعمیر شدہ مکانات ملازمین کو دیے گئے۔ اس وقت تک مکانات کی مارکیٹ ویلیو بڑھ چکی تھی۔ یعنی پانچ لاکھ روپے والا مکان تقریباً ساڑھے سات لاکھ روپے میں پڑا تھا۔
بعد ازاں فیز تھری کی بکنگ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کے دور میں دو ہزار پانچ اور چھ کے درمیان ہوئی تھی۔ تاہم اس بار تعمیر شدہ مکانات کے بجائے ملازمین کو صرف پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے۔ پانچ سو گز کا پلاٹ دس لاکھ روپے کا تھا۔ کچھ ملازمین نے اپنے مکانات بنالئے تھے۔ جبکہ اکثریت نے یہ سوچ کر مکانات کی تعمیر شروع نہیں کی تھی کہ جب وہ ریٹائر ہوں گے تو حاصل ہونے والے واجبات کی رقم سے مکانات تعمیر کرلیں گے لیکن اب نام نہاد گولڈن ہینڈ شیک کے تحت جس طرح ملازمین کو برائے نام رقم دے کر فارغ کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنے پلاٹس پر مکان بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اسٹیل مل کے لا ڈپارٹمنٹ سے منسلک ایک افسر، جنہیں ابھی برطرفی کا لیٹر نہیں ملا ہے اور وہ اپنا کیس دیگر ملازمین کے ساتھ لیبر کورٹ میں لے کر گئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’جنہوں نے گلشن حدید میں اپنے مکانات بنالئے تھے یا پلاٹ خرید رکھے ہیں۔ یہ ملازمین تو پھر بھی سروائیو کرجائیں گے کہ ان کے پلاٹس کی قیمت بھی اب کروڑوں روپے میں ہے۔ خوش قسمتی سے ان ملازمین کے پاس اپنے پلاٹس کے مالکانہ حقوق ہیں۔ لہٰذا اسٹیل مل کی نجکاری اور نوکری سے فارغ کیے جانے کے بعد بھی ان کے مکان یا پلاٹ کوئی واپس نہیں لے سکتا۔ لیکن اصل مسئلہ ان جیسے تین سے ساڑھے تین ہزار ملازمین کا ہے۔ جو اسٹیل ٹائون شپ میں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے اٹھائیس سو سے تین ہزار ملازمین کے پاس نہ ذاتی مکان ہے اور نہ ہی وہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے گلشن حدید میں پلاٹ الاٹ کرا سکے تھے۔
نوکریوں سے فارغ کیے جانے کے بعد اب جب ان کو اسٹیل ٹائون شپ کی رہائش گاہ سے نکالا جائے گا توان کے پاس کرائے کا مکان لینے یا اپنے کسی عزیزکے گھر میں پناہ لینے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ چونکہ فارغ کئے جانے والوں میں گریڈ ایک سے سات گریڈ کے معمولی ملازمین کی تعداد زیادہ ہے۔ لہٰذا ان کے لئے کرائے کا مکان لینا آسان نہیں ہوگا۔ گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر انہیں مختلف کٹوتیاں کر کے محض چار سے پانچ لاکھ روپے دیئے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس نیا مکان لینے کا آپشن تو بالکل نہیں۔ جبکہ بے روزگاری کی وجہ سے وہ یہ چار پانچ لاکھ روپے بھی سال چھ مہینے میں گھر پر بیٹھ کر کھا جائیں گے۔ یوں ان بے روزگار ملازمین کو سر چھپانے کا سنگین مسئلہ بھی درپیش ہے۔
اسی طرح افسر سطح کے ملازمین کو بھی زیادہ بہتر صورتحال کا سامنا نہیں۔ مجھے جیسے افسروں کو کٹوتی کے بعد چالیس سے بیالیس لاکھ روپے ملیں گے۔ اتنے پیسوں میں تو آج کل سرجانی ٹائون میں بھی مکان نہیں ملتا۔ میں ساری عمر اسٹیل مل میں رہائش پذیر رہا ہوں۔ ملازمت کے چھ سات برس باقی تھے۔ سوچ رہا تھا کہ اس عرصے میں بچے کسی قابل ہوجائیں گے تو ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے کوئی مناسب مکان خرید لوں گا۔ لیکن اب یہ خواب بکھرتے دکھائی دے رہے ہیں‘‘۔
اسٹیل ٹائون شپ میں رہائش پذیر ملازمین کو مینجمنٹ نے ایک ماہ کے اندر مکانات خالی کرنے کی ہدایت کی ہے تاہم اب یہ مہلت چھ ماہ کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سرکلر بھی نکالا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جو ملازمین فوری طورپر مکانات خالی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وہ مزید چھ ماہ تک اس صورت میں قیام کر سکتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران ماہانہ پرائیویٹ کرایہ ادا کرتے رہیں۔ یعنی ملازمین کو رعایتی کرایہ ختم کر کے مارکیٹ کے حساب سے ماہانہ کرائے پر چھ ماہ تک رہنے کی چھوٹ دی گئی ہے۔ تاکہ جن فیملیوں کو اپنے بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے یا فوری طور پر دوسری جگہ شفٹ ہونے میں دشواری ہے۔ وہ پورے کرائے کے عوض مزید چھ ماہ اسٹیل ٹائون شپ میں گزار سکیں۔
اسٹیل مل ٹائون شپ کی سی کٹیگری میں دو سو گز کے مکان میں رہائش پذیر ڈپٹی منیجر لیول کے ایک افسر نے بتایا ’’میری بیٹی گلشن حدید گورنمنٹ کالج میں انٹر میں پڑھ رہی ہے۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ بچی کی تعلیم مکمل ہوجائے تو یہاں سے دوسری جگہ شفٹ ہوا جائے۔ اس وقت میں ٹائون شپ میں دو سو گز کے مکان کا کرایہ تین ہزار آٹھ سو روپے دے رہا ہوں۔ تاہم پرائیویٹلی ماہانہ کرائے پر یہ مکان مجھے تیس سے پینتیس ہزار روپے میں پڑے گا۔ بجلی اور گیس کے بل اس کے علاوہ ہیں۔
میری طرح کے افسر لیول کے ملازمین تو یہ بوجھ کسی نہ کسی طرح برداشت کرلیں گے تاہم اصل مسئلہ گریڈ ایک سے سات تک کے چھوٹے ملازمین کا ہے۔ برطرف کئے جانے والوں میں زیادہ تعداد بھی ان کی ہے۔ جن کی تنخواہیں پہلے ہی معمولی تھیں۔ اب فارغ کیے جانے پر وہ اس ماہانہ آمدنی سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بھی بیشتر کے بچے ٹائون شپ کے اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچانے کے لئے انہیں چند مزید ماہ رعایتی کرائے پر ہی قیام کی اجازت دی جائے۔ پرائیویٹ کرایہ وہ افورڈ نہیں کر سکتے ہیں۔ لوئر اسٹاف کے دو کمرے کے فلیٹ کا ماہانہ سرکاری کرایہ چھ سے آٹھ سو روپے ہے۔ تین کمروں کے فلیٹ کا کرایہ ایک ہزار روپے ہے۔ تاہم جب ان سے مارکیٹ ریٹ پر کرایہ وصول کیا جائے گا تو دو کمروں کے فلیٹ کا کرایہ دس سے گیارہ ہزار اور تین کمروں کے فلیٹ کا کرایہ تیرہ سے چودہ ہزار ماہانہ پڑے گا۔ بے روزگاری کا وار سہنے والے لوئر کٹیگری کے ملازمین یہ مالی بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن مینجمنٹ اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں کہ نوکری سے فارغ کیے جانے والوں کو چھ ماہ مزید قیام کی اجازت اسی صورت دی جاسکتی ہے۔ جب وہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے کرایہ ادا کریں‘‘۔
ذرائع نے بتایا کہ اب تک اسٹیل مل ٹائون شپ کے قریباً ڈھائی ہزار رہائشی ملازمین میں سے محض ڈھائی تین سو نے مارکیٹ ریٹ پر کرائے کے تحت مینجمنٹ کے ساتھ مزید چھ ماہ قیام کا معاہدہ کیا ہے۔ ان میں زیادہ تر افسر کٹیگری کے ملازمین ہیں۔ ورکرز نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم انہیں خوف ہے کہ مینجمنٹ پولیس رینجرز بلاکر ان سے زبردستی مکانات اور فلیٹس خالی کرالے گی۔ اب ان تمام ملازمین کی نگاہیں کل (منگل) سپریم کورٹ کی سماعت پر لگی ہیں۔ جس میں اسٹیل مل کے حوالے سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔