رپورٹ:محمد قاسم:
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں قائم نواز شریف کڈنی اسپتال کو صحت کارڈ کی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے تقریباً تمما اسپتالوں میں صحت کارڈ کی سہولت رکھی ہے تاہم نواز شریف کڈنے اسپتال کو لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ جس پر عوام میں اشتعال پایا جاتا ہے۔
سوات کے شہریوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے نام سے پی ٹی آئی حکومت کو اتنی چڑ ہے کہ نواز شریف کے نام پر قائم اسپتال سے بھی تعصب برتا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے خیبرپختون خوا کے عوام کیلیے تحفے کے طور پر تعمیر کئے جانے والے کڈنی اسپتال کو صحت کارڈ کی لسٹ میں شامل نہ کر کے حکومت نے لاکھوں لوگوں کو مایوس کیا ہے۔کڈنی کے مریض بہترین علاج کی وجہ سے اس اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ اگر یہاں بھی صحت کارڈ کی سہولت ہو تو غریب شہری اپنے گردوں کا علاج کرا سکتے ہیں۔
ادھر خیبرپختون خوا میں شہریوں نے بازاروں میں ماسک پہننا کم کر دیا ہے۔ تیس فیصد سے بھی کم لوگ بازاروں میں ماسک پہنے نظر آرہے ہیں۔ جبکہ اس سے قبل 80 فیصد لوگ ماسک کے ساتھ بازار کا رخ کرتے تھے۔ دوسری جانب بڑے سرکاری و نجی اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے کورونا مریضوں کی دیکھ بھال اور کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی کے بجائے خیبرپختون خوا حکومت کے صحت کارڈز سے پیسے بٹورنے کیلیے نجی بلڈنگز میں اسپتال قائم کرنا شروع کر دیے ہیں۔ چنکہ ان کو یہ پیسے کیش میں ملتے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹرز اپنی مرضی سے علاج کے پیسے کاٹ رہے ہیں۔ تاہم ہیلتھ ورکرز کا کہنا ہے کہ نرسز اور پیرا میڈکس ابھی بھی کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ان کے لیے ویکسین میں اضافہ کرنا چاہیے تھا۔ یومیہ سو ڈیڑھ سو ویکسین سے کچھ نہیں ہوگا۔کم از کم خیبرپختون کے اسپتالوں میں جس طرح صحت کارڈ کیلیے کائونٹرز نجی و سرکاری اسپتالوں میں بنائے گئے ہیں۔
اسی طرح ہیلتھ ورکز کیلیے کائونٹر بنائے جاتے تو ایک ہفتے کے اندراندر تمام اہلکارکور ہو جاتے۔ پیرا میڈکس اور دیگر طبی اہلکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ جس طرح ڈاکٹرز نجی اسپتال قائم کر رہے ہیں اور حکومت و انتظامیہ کورونا کے ایس او پیز کے بجائے دیگر معاملات میں الجھی ہوئی ہیں۔ اس سے ایک بار پھر کورونا بڑھ سکتا ہے۔ اگر کورونا کی تیسری لہر شروع ہو گئی تو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپریل میں رمضان شروع ہو رہا ہے۔ اس لیے رمضان سے قبل سخت احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو اس وبا سے نجات دلائی جا سکے۔
کورونا ویکسین آتے ہی خیبرپختون خوا میں شہریوں نے احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ جبکہ میل جول سے متعلق پابندیاں بھی نظر انداز کر دی گئی ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات سمیت جلسے جلسوں اور مارکیٹوں میں ایس او پیزکی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران ماسک اور سینی ٹائزر کا استعمال بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق پشاور میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران بھی متاثرین کی تعداد دوسرے اضلاع کے مقابلے میں زائد رہی اور روزانہ ایک سو سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ محکمہ صحت کے ذرائع نے بتایا کہ جب سے صوبے کو کورونا سے بچائو کی ویکسین فراہم کی گئی ہے۔ عام لوگوں میں کورونا سے بچائو سے متعلق احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کر دیاگیا ہے۔
سینی ٹائزرکا استعمال گزشتہ برس ستمبر میں ہی ختم ہو گیا تھا۔ اب شہریوں نے ماسک بھی اتار دیے ہیں۔ اس رجحان کے نتیجے میں لوگوں میں وائرس تیزی سے پھیلنے کے خدشات بڑھنے لگے ہیں۔ جبکہ ضلعی انتظامیہ جو پہلے کبھی کبھار بازاروں، ٹرانسپورٹ اڈوں اور بی آر ٹی اسٹیشنوں کا دورہ کر کے کورونا سے متعلق ایس او پیز کا جائزہ لیا کرتی تھی۔ اب اس کے اہلکار بھی منظر سے غائب ہو گئے ہیں۔ بی آر ٹی بسوں میں بھی پچاس سے ساٹھ افراد کھڑے ہو کر سفر کر رہے ہیں۔ گنجائش سے زیادہ افراد کے بس میں سفر سے بھی کورونا بڑھنے کے خدشات ہیں۔ لیکن اس حوالے سے نہ ہی بی آر ٹی بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ مسافر بٹھانے کا نوٹس لیا جارہا ہے۔
ادھر ترجمان ٹرانس پشاور کے مطابق بی آر ٹی پشاورکیلیے 30 نئی بسیں چین سے پاکستان کیلیے روانہ کر دی گئی ہیں۔ مزید بسوں کو ایکسپریس روٹ سمیت دیگر روٹس پر چلایا جائے گا۔ 18 میٹر کی 30 بسوں میں 3750 مسافر بیک وقت سفر کرسکیں گے۔ جبکہ30 نئی بسوں کی آمد کے بعد بی آر ٹی پشاور میں بسوں کی مجموعی تعداد 158 ہوجائے گی۔ جس سے دوسری بسوں پر مسافروں کا بوجھ کم ہو گا۔ واضح رہے کہ خیبرپختون خوا میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 160 سے زیادہ نئے کورونا کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ خیبرپختون خوا میں طبی عملے کو کورونا ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے اوراب تک چار سو سے زائد اہلکاروں کو ویکسین دی جاچکی ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ و صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ خیبرپختون میں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرزکو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین دی جارہی ہے۔ گزشتہ ایک روز میں مزید 179 ہیلتھ ورکرز کو ویکسین دی گئی۔