امت رپورٹ:
پنجاب کے57 سے زائد پی ٹی آئی ارکان اسمبلی اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ناراض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان سینیٹ الیکشن کو لے کر حد درجہ پریشان ہیں۔ ناراض ارکان کے ووٹ مخالفین کی جھولی میں جانے سے روکنے کے لیے وہ شو آف ہینڈ کے لیے کبھی اسمبلی میں قرارداد لاتے ہیں اور کبھی متنازع آرڈیننس جاری کرا دیتے ہیں۔
اصل صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پنجاب میں نصف درجن سے زائد پی ٹی آئی اور لیگی ارکان صوبائی اسمبلی سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ علی الاعلان بغاوت کرنے والے پی ٹی آئی کے ایم پی اے خواجہ محمد دائود سلیمانی کے ساتھ بظاہر پندرہ سے بیس ارکان کا گروپ ہے تاہم باغیوں کی اصل تعداد اس سے تین گنا ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک ایم پی اے نے، جو آزاد حیثیت سے سن اٹھارہ کا الیکشن جیتا تھا، بتایا کہ صوبے کے چھتیس اضلاع میں سب سے زیادہ ناراض ارکان جنوبی پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجموعی ناراض ارکان میں بھکر کے دو، اٹک کا ایک، ڈیرہ غازی خان کے چار، لودھراں کا ایک، ملتان کے سات، رحیم یار خان کے چھ، بہاولنگر کا ایک، راجن پور کے تین، بہالپور کا ایک، جھنگ کے پانچ، لیّہ کے دو، گجرات کے تین، جہلم اور خوشاب کے دو، فیصل آباد کے آٹھ، منڈی بہائوالدین کا ایک، سرگودھا کے تین، حافظ آباد کا ایک، شیخوپورہ کے دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک اور راولپنڈی کے تین ارکان صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد اس وقت ایک سو اکیاسی ہے۔ یعنی نون لیگی ایک سو پینسٹھ ارکان کے مقابلے میں اسے صرف سولہ ارکان کی برتری حاصل ہے۔ اگر ان ستاون ارکان نے سینیٹ الیکشن میں اپنی ناراضی کا اظہار ووٹ کے ذریعے کردیا تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اسی خدشے نے حکمراں جماعت پی ٹی آئی کو بے چین کر رکھا ہے۔
آف دی ریکارڈ ہونے والی بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ ان ستاون ناراض ارکان میں سے پچاسی فیصد الیکٹ ایبلز ہیں۔ جو گزشتہ تقریباً تمام حکومتوں میں شامل رہ چکے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک صوبائی رکن اسمبلی کہتے ہیں ’’یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہر الیکشن میں الیکٹ ایبلز کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ وہ منتخب ہوکر حکومت کا حصہ بن جائیں۔ چاہے حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو۔ تاکہ اپنے حلقے کے عوام کے کام آسکیں۔ اسی وجہ سے حلقے کے لوگ اپنے الیکٹ ایبلز کو آنکھ بند کرکے ووٹ دیتے ہیں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نمائندہ اقتدار کا حصہ بننے کے بعد ان کے علاقے میں ترقیاتی کام کرائے گا اور انہیں نوکریاں دے گا۔
پچھلی کئی دہائیوں سے یہ سسٹم چلا آرہا ہے۔ تاہم پہلی بار وزیراعظم کی خیالی مثالیت پسندی نے الیکٹ ایبلز کا سیاسی مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جب انہوں نے بطور وزیراعظم اعلان کیا تھا کہ منتخب نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جائیں گے۔ ڈھائی برس تک ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملے۔ اس کے نتیجے میں منتخب نمائندوں کے پاس دو آپشنز رہ گئے تھے۔ یا تو وہ اپنے گھروں میں رہیں اور یا پھر زیادہ وقت شہر سے باہر گزاریں۔ کیونکہ وہ اپنے حلقے کے عوام کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں۔ جو ان سے علاقے کے ترقیاتی کاموں اور نوکریوں کا سوال کر رہے ہیں‘‘۔ ڈیرہ غازی خان کے یہ ایم پی اے چونکہ خود بھی الیکٹ ایبلز کی کٹیگری سے تعلق رکھتے ہیں اور پی ٹی آئی حکومت جوائن کرنے سے پہلے قاف لیگ اور نون لیگی حکومتوں میں رہ چکے ہیں۔ لہٰذا الیکٹ ایبلز کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کوئی برائی نہیں۔ اگر کوئی نمائندہ اپنے حلقے کے عوام کی خاطر پارٹیاں بدلتا ہے تو اس میں اس کے ووٹرز اور سپورٹرز کا فائدہ ہوتا ہے اور علاقے میں ترقی کے مواقع کھلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حلقے کے عوام ووٹ دیتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا نمائندہ اس بار کس پارٹی کے لیے الیکشن لڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا حلقہ بھی ڈیرہ غازی خان ہے۔ جبکہ باغی گروپ تشکیل دینے والے پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی خواہ دائود سلیمانی کا حلقہ وزیراعلیٰ کے حلقے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ضلع ڈیرہ غازی خان کی آٹھ سیٹوں میں سے سات نشستیں رکھنے والی پی ٹی آئی کے تقریباً چار ارکان خواجہ دائود سلیمانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی طرح سن اٹھارہ کے عام انتخابات میں بھکر سے تحریک انصاف نے کلین سوئپ کیا تھا۔ یوں اس وقت بھکر میں صوبائی اسمبلی کی تمام چار سیٹیں حکمراں جماعت کے پاس ہیں۔ لیکن ان ارکان میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے اور چار میں سے دو ارکان صوبائی اسمبلی ایسے ہیں، جو بیک وقت نون لیگ اور قاف لیگ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
ضلع جھنگ میں صوبائی اسمبلی کی مجموعی سات سیٹوں میں سے چھ اس وقت تحریک انصاف کے پاس ہیں۔ جبکہ ساتویں سیٹ حاصل کرنے والے پاکستان راہ حق پارٹی کے محمد معاویہ ہیں۔ لیکن پچھلے ایک برس سے جھنگ ضلع سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔ یہاں قریباً پانچ پی ٹی آئی ارکان ایسے ہیں، جو نون لیگ سے بیک ڈور رابطوں میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ہی ایک کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور بالخصوص بزدار کی نااہل حکومت نے پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی کا سیاسی مستقبل بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جب کوئی منتخب نمائندہ اپنے حلقے کے عوام کے کام کرانے کے قابل نہیں ہوگا تو لوگ انہیں کیوں ووٹ دیں گے۔
مذکورہ ایم پی اے کے مطابق ڈھائی برس تک ارکان اسمبلی کو لالی پاپ دیا گیا۔ اب سینیٹ الیکشن کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں مجبوراً ارکان اسمبلی کے لیے فی کس پچاس کروڑ روپے کے فنڈ کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن ارکان اسمبلی کی اکثریت کو اس پر یقین نہیں۔ ان کے خیال میں ایک تو اتنی بڑی رقم خزانے سے فوری نکالنا ممکن نہیں اور دوسرا سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے ہی جو ارکان اسمبلی اس فنڈ کے حصول کے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے۔ ان میں مایوسی بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا زیادہ تر ناراض ارکان سمجھتے ہیں کہ اس لالی پاپ کو قبول کرنے کے بجائے حالات کے حساب سے اپنے مفاد کا تحفظ کیا جائے۔
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں اور بالخصوص اپنے ارکان اسمبلی کو نظر انداز کرنے پر پارٹی کے اندر پچھلے ڈیڑھ برس سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ تاہم سینیٹ الیکشن کے تناظر میں یہ معاملہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مذکورہ ایم پی اے کے مطابق گزشتہ برس بھکر سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے غضنفر عباس چینا کی قیادت میں بھی ایم پی ایز کا باغی گروپ تشکیل پایا تھا۔ غضنفر عباس بھی الیکٹ ایبلز کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سن تیرہ کا الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر جیت کر انہوں نے اس وقت کی حکمراں پارٹی نون لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ پھر اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے ہوا کا رخ دیکھ کر پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار ہوگئے تھے۔
ایم پی اے کے مطابق غضنفر عباس اور ان کے ناراض گروپ کو بھی یہی شکایات تھیں کہ ترقیاتی فنڈز نہ ملنے اور بے اختیار ہونے کے سبب وہ اپنے حلقے کے عوام کا سامنا نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم عمران خان نے ناراض گروپ سے ذاتی طور پر ملاقات کرکے انہیں رام کرلیا تھا۔ تاہم ان سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے۔ لہٰذا ایک بار پھر یہ گروپ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی کے مطابق پارٹی کے ایم پی ایز کو ایک تشویش یہ بھی ہے کہ انہیں ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر سینیٹر بنانے کا کہا جارہا ہے، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں زیادہ تر ٹیکنوکریٹ، سرمایہ کار یا وزیراعظم کے قریبی دوست ہیں۔ جنہوں نے کبھی ایم پی ایز کے ساتھ ملاقات کرنا گوارہ نہیں کیا۔ اب وزیراعظم چاہتے ہیں کہ پارٹی کے ایم پی ایز ایسے لوگوں کو چھ سال کے لیے ایوان بالا میں پہنچادیں۔ پارٹی کے ارکان اسمبلی میں پائی جانے والی بے چینی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔