حضرت عمر بن حجادہؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصریؒ کی باندی سے پوچھا کہ تم نے حضرت حسن بصریؒ کی خاص بات کون سی دیکھی؟ اس نے کہا کہ میں انہیں دیکھا کرتی تھی کہ وہ جیسے ہی قرآن کو کھولتے، ان کے ہونٹ ابھی بند ہی ہوتے کہ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہو جاتا ہے۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی قدس سرہ کے حالات میں مولانا عاشق الٰہی صاحب قدس سرہ لکھتے ہیں کہ آپ نے 7 برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا تھا اوراس کے بعد 6 مہینے تک مسلسل اپنے والد کی طرف سے مامور رہے کہ جب تک پورا قرآن حفظ نہ پڑھ لو گے چھٹی نہ ملے گی، ہاں ختم کے بعد تمام دن چھٹی، مولانا فرمایا کرتے تھے کہ میں شوق سے فارسی پڑھا کرتا تھا، حفظ قرآن کے زمانے میں بھی آپ نے والد سے پوشیدہ فارسی پڑھی اور قصص از خود دیکھ لیے تھے اور اس کے باوجود حفظ قرآن کے سبق پر اثر نہیں آنے دیا۔
ایک مرتبہ میری درخواست پر رمضان میں قرآن شریف سنانے کے لیے میرٹھ تشریف لائے تو میں نے دیکھا دن بھر چلتے پھرتے پورا قرآن مجید ختم فرما لیتے اور افطار کے وقت ان کی زبان پر سورۃ الناسِ ہوتی تھی، ریل سے اترے تو عشاء کا وقت ہو گیا تھا، ہمیشہ باوضو رہنے کی عادت تھی، اس لیے مسجد میں قدم رکھتے ہی مصلے پر آ گئے اور تین گھنٹے میں دس پارے ایسے صاف اور رواں پڑھے کہ نہ کہیں لکنت تھی، نہ متشابہ، گویا قرآن شریف سامنے کھلا رکھا ہے اور باطمینان پڑھ رہے ہیں تیسرے دن ختم فرما کر روانہ ہو گئے کہ نہ دور کی ضرورت تھی نہ سامع کی۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب قدس سرہ کے والد ماجد کو قرآن کریم اتنا پختہ یاد تھا کہ پورے قرآن میں ایک بھی غلطی نہیں آتی تھی۔ خود حضرت شیخ بھی حافظ تھے اور کثرت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے، خصوصاً رمضان المبارک میں 42 سال سے زیادہ تک روزانہ ایک قرآن شریف ختم کرنے کا آپ کا معمول رہا۔
اپنے گھر کی خواتین کے بارے میں فرماتے ہیں: ہمارے گھر کی مستورات میں میری بچیاں اﷲ ان کو مزید قوت و ہمت عطا فرمائے، کھانے پینے کے مشاغل اور بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ کہ ایک ایک کے کئی کئی بچے ہیں، ماہ مبارک کی راتوں کا اکثر حصہ مختلف حافظوں سے سننے میں گزارتی ہیں اور ان میں 14، 15 پارے روزانہ پڑھنا تو اقل درجہ ہے اس پر تنافس اور مقابلہ ہوتا ہے کہ کس کے پارے زیادہ ہوئے، میری دادی صاحبہؒ حافظہ تھیں، اس لیے ایک منزل روزانہ کا تو ان کا مستقل معمول تھا اور ماہ مبارک میں 40 پارے یعنی ایک قرآن پورا کر کے 10 پارے مزید روزانہ پڑھنا تو ہمیشہ کا معمول تھا اور اس کے علاوہ بیسیوں تسبیحیں مختلف کئی کئی سو کی دائمی مشغلہ تھا، جن کی تعداد 17 ہزار کے قریب ہوتی ہے۔
حضرت سحنون بن سعدیؒ کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن قاسمؒ کو خواب میں دیکھا تو انہوں نے پوچھا کہ حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے رب کے پاس اس چیز کو پا لیا، جسے میں پسند کرتا تھا؟ انہوں نے پوچھا کہ کس عمل کو آپ نے سب سے افضل پایا؟ فرمایا کہ تلاوت قرآن پاک، حضرت سحنون نے ان سے پوچھا کہ مسائل کو کیسا پایا؟ انہوں نے اپنی انگلی سے اشارہ کر کے کہا کہ (تلاوت کے مقابلے) کچھ نہیں، حضرت سحنونؒ کہتے ہیں کہ انہوں نے پھر حضرت ابن وہبؒ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو اعلیٰ علیین میں ہیں۔
حضرت ثابت بنانیؒ ایک دن اور ایک رات میں پورا قرآن مجید پڑھتے تھے اور دائمی روزہ رکھتے تھے۔
حضرت ثابت بنانیؒ فرماتے تھے: میں نے جامع مسجد میں کوئی ستون ایسا نہیں چھوڑا جس کے پاس بیٹھ کر قرآن ختم نہ کیا ہو اور رویا نہ ہوں۔