حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ جب جنگ احد کا ذکر فرماتے تو یہ ارشاد فرماتے کہ یہ دن سارے کا سارا حضرت طلحہؓ کے حساب میں ہے۔ پھر (تفصیل سے) بیان فرماتے ہیں کہ میدان جنگ میں، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور اکرمؐ کی حفاظت کے لیے بڑے زور و شور سے جنگ کر رہا ہے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ خدا کرے یہ حضرت طلحہؓ ہوں، اس لیے کہ جو ثواب مجھ سے چھوٹنا تھا وہ تو چھوٹ گیا، اب مجھے زیادہ پسند یہ ہے کہ یہ ثواب میری قوم کے کسی آدمی کو ملے (اور حضرت طلحہؓ میری قوم کے آدمی تھے) اور میرے اور مشرکین کے درمیان ایک آدمی اور تھا جسے میں پہچان نہیں رہا تھا اور میں بہ نسبت اس آدمی کے حضور اکرمؐ سے زیادہ قریب تھا، لیکن وہ مجھ سے زیادہ تیز چل رہا تھا، تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ ہیں۔ ہم دونوں حضور اکرمؐ کی خدمت میں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ آپؐ کا اگلا دانت شہید ہو چکا ہے اور آپؐ کا چہرہ مبارک زخمی ہے اور خود کی دو کڑیاں آپؐ کے رخسار مبارک میں گھس گئی ہیں۔
آپؐ نے ہم سے فرمایا: اپنے ساتھی طلحہؓ کی خبر لو جوکہ زیادہ خون نکلنے کی وجہ سے کمزور ہو چکے تھے۔ (حضور اکرمؐ کو زخمی حالت میں دیکھ کر) ہم لوگ آپؐ کے اس فرمان کی طرف توجہ نہ کر سکے۔ (ہم بہت پریشان ہو گئے تھے) میں حضور اکرمؐ کے چہرے سے کڑیاں نکالنے کے لیے آگے بڑھا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے مجھے اپنے حق کی قسم دے کر کہا کہ (یہ سعادت لینے کے لیے) مجھے چھوڑ دو۔ میں نے (یہ موقع) ان کے لیے چھوڑ دیا۔
انہوں نے ہاتھ سے کڑیاں نکالنا پسند نہ کیا کہ اس سے حضور اکرمؐ کو تکلیف ہو گی، بلکہ دانتوں سے پکڑ کر ایک کڑی نکالی، کڑی کے ساتھ ان کا سامنے کا ایک دانت بھی نکل کر گر گیا۔ جو انہوں نے کیا اسی طرح کرنے کے لیے میں بھی آگے بڑھا، انہوں نے پھر مجھے اپنے حق کی قسم دے کرکہا: (یہ سعادت لینے کے لیے) مجھے چھوڑ دو، اورانہوں نے پہلی مرتبہ کی طرح دانتوں سے پکڑ کر کڑی کو نکالا، اس دفعہ کڑی کے ساتھ ان کا دوسرا دانت نکل کر گر گیا۔ دانتوں کے ٹوٹنے کے باوجود حضرت ابو عبیدہؓ لوگوں میں بڑے خوبصورت نظر آتے تھے۔
حضور اکرمؐ کی خدمت سے فارغ ہو کر ہم لوگ حضرت طلحہؓ کے پاس آئے، وہ ایک گڑھے میں پڑے ہوئے تھے، اور ان کے جسم پر نیزے اور تیر اور تلوار کے 70 سے زیادہ زخم تھے اور ان کی انگلی بھی کٹ گئی تھی۔ ہم نے ان کی دیکھ بھال کی۔