قتل ناحق کا وبال

امام بخاریؒ نے لکھا ہے کہ امام ابن سیرین حرم کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ دوران طواف ایک شخص کو دعا مانگتے سنا۔ ’’خدا مجھے بخش دے، مگر مجھے یقین ہے کہ تو مجھے نہیں بخشے گا۔ امام ابن سیرین کہتے ہیں، میں نے حیران ہو کر پوچھا، خدا کے بندے یہ کیا کہہ رہا ہے؟
اس نے کہا، شیخ، میں قاتلین عثمانؓ میں سے ہوں۔ وہ شہید ہو چکے تھے، میں نے ان کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور زور سے تھپڑ مارا، یا شیخ! میرا یہ ہاتھ اسی دن سے سوکھ چکا ہے۔ امام ابن سیرین کہتے ہیں اس شخص کا ہاتھ خشک لکڑی کی طرح ہوچکا تھا۔ (تاریخ کبیر ج 3 ص۱۲۷)
سخت گیر اموی گورنر فسادی صفت سبائیوں عراقیوں کیلئے عذاب الٰہی بن کر نازل ہوا تھا۔ مشہور ہے کہ قرآن مجید کے اعراب حجاج بن یوسف نے لگوائے۔ قتیبہ بن مسلم باہلی موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیادہ اور محمد بن قاسم اس کے مایہ ناز جرنیل تھے۔ صرف پچیس تیس سال ان جرنیلوں کو اور مل جاتے تو ایشیا، یورپ اور افریقہ پر باطل مذاہب کا نام و نشان مٹا دیا جاتا۔ اپنے 17 سالہ بھتیجے کے ذریعے اس نے مسلم ہند اور پاکستان کی بنیاد رکھی… تاہم اس کا یہ پہلو عام اہل علم میں بہت کم ذکر ہوا ہے کہ سبائی غنڈوں قاتلین عثمان میں سے بچے کھچے مجرم اس کی گرفت سے نہ بچ سکے۔
حجاج نے آدمی بھیج کر عمیر بن ضابی کو واپس بلوایا۔ اس پر شہادتیں پیش کرنے کی تو ضرورت ہی نہ تھی، خود اسی کے اشعار کافی تھے۔ پھر بھی شاہد موجود تھے، مجرم تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اقرار جرم کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ استثنا منسوخ ہو چکا تھا۔ اگلے ہی لمحے حجاج کی تلوار نے اسے واصل جہنم کر دیا تھا۔ اسی طرح کمیل بن زیاد بھی حضرت امیر معاویہؓ کے رضا کاروں سے بچ کر زیر زمین رہ کر روسیاہی کی زندگی گزار رہا تھا۔ وہ بھی سخت گیر حجاج کی گرفت سے نہ بچ سکا۔ اور اصل اور بڑا عذاب تو آخرت کا ہے۔ (القرآن)