یہ زمانہ جاہلیت کی بات ہے ،مکہ میں ایک بڑے سردار کی بیٹی تھی ،جس کا نام ہند بنت عتبہ بن ربیعہ تھا۔ وہ اپنے زمانے کی نہایت ذہین وفطین اور حسین و جمیل لڑکی تھی۔ اس سے شادی کیلئے ایک ہی وقت میں سہیل بن عمرو اور ابوسفیان بن حرب نے پیغام بھیجا۔ اس کے والد عتبہ اپنی بیٹی کے پاس آئے اور کہا: ’’بیٹی! مکہ کے دو بہترین نوجوانوں نے تم سے شادی کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اب تمہاری مرضی ہے جس کو تم اختیار کرو گی میں اس سے تمہاری شادی کردوں گا۔‘‘ ہند کہنے لگی کہ ’’ ابا جان! ان دونوں کی عادات اور خصائل سے مجھے آگاہ کریں تاکہ مجھے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو‘‘۔
عتبہ نے سہیل بن عمرو کا تعارف یوں کروایا:
’’سہیل بن عمرو خاندان کا منتخب اور بہتر آدمی ہے، زندگی کے ناز و نعم کی سہولتیں اس کو میسر ہیں۔ دولت و ثروت کے سکوں کی اس کے آنگن میں کثرت رہتی ہے۔ میری لاڈلی! اگر تو نے اس کا پیغام قبول کر لیا تو وہ تیرا ہو کر رہے گا۔ تیری باتوں کی موافقت کو اپنی شان تصور کرے گا۔ اگر تو نے اس کی ہاں میں ہاں ملادی اور اس کی طرف محبت و میلان کو مقدم کردیا تو یقیناً اس کی نگاہوں کا تارا بن جائے گی، تیرا ہر قدم اس کی ہتھیلی پر ہوگا اور تیری ہر بات اس کے سر آنکھوں پر۔ اس کے اہل خانہ کی باگ دوڑ تیرے ہاتھ میں ہوگی اور مال و دولت پر تیری حکمرانی۔
جہاں تک ابوسفیان بن حرب کی بات ہے تو وہ خوشحال ہے، حسب ونسب والا اور پختہ و بہتر رائے کا ملک ہے۔ اس کا گھرانہ شرافت و نجابت میں معروف ہے۔ شدید غیرت اس خاندان کی فطرت ہے اور کثرت فال اس کی عادت۔ اپنے مال کے ضیاع سے وہ غافل نہیں رہتا اور نہ اپنے اہل خانہ پر لاٹھی اٹھانے سے کبھی باز آتا ہے‘‘۔
ہند نے والد کی بات سن کر عرض کیا:
’’والد محترم! پہلا آدمی سہیل بن عمرو سردار اور اپنی بیوی کے نشے میں اس کے قدموں کے نیچے مال و دولت کا بچھونا کردینے والا ہے، اس لئے ممکن ہے بیوی ناخوشگواری کے باوجود اس کیلئے الفت و محبت کا نذرانہ پیش کرنا اپنا شیوہ بنالے اور اپنے دل کے نرم گوشوں میں اسے جگہ دے کر اپنا تن من دھن سب کچھ اس کے سپرد کردے، لیکن جب اس کے اہل خانہ کی ذمے داری بیوی کے کمزور کندھو ں پر آپڑے گی ،تو پھر اس کی زندگی کا ستارہ گردش کرنے لگے گا اور وہ غلطی کا شکار ہوجائے گی، اور جب اہل خانہ اس سے کوئی رکاوٹ محسوس کریں گے تو پھر اطمینان کی سانس لینا بھی اس کیلئے دوبھر ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں اس کی حیثیت کم سے کم تر ہو جائے گی اور اس کا سارا ناز نخرا کھڑاؤں کی دھول کی طرح منتشر ہوجائے گا۔ اگر اس کے بطن سے کوئی بدصورت بچہ جنم لے گا تو احمقوں کی فہرست میں اس عورت کے ایک نام کا اضافہ ہوجائے گا اور اگر کوئی شریف بچہ جنم لے گا تو پھر ایسے گھرانے میں اس کی بدقسمتی اس کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہ ہوگی۔ لہٰذا ! اے والد محترم ! اس رشتہ کو نامنظور کردیجئے۔
جہاں تک دوسرے آدمی ابوسفیان بن حرب کی بات ہے، تو وہ عفت مآب، آزاد اور شرمیلی دوشیزہ کا شوہر بننے کیلئے بالکل مناسب ہے، اور ہاں میں بھی اس کے خاندان کا ایک ایسا فرد بن کررہوں گی ،کہ اسے میرے خلاف غیرت کھانے کا موقع ہی نہ ملے گا (یعنی بالکل پاک دامن رہوں گی اور اپنی ساری توجہ اپنے شوہر ہی پر مرکوز رکھوں گی) اور خاندان کو میری طرف سے کوئی شکایت نہ ہوگی، تاکہ میرے ہونے والے شریک حیات کو اس کی طرف سے کسی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میں ایسے غیرت مند آدمی سے شادی پر اتفاق کرتی ہوں۔ سو ابو جان! آپ میری شادی اسی سے کردیجئے‘‘۔
بیٹی کا یہ دور رس تجزیہ سننے کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے بیٹی کی شادی ابوسفیان ابن حرب سے کردی۔
یہ وہی ہند ہے جو ایک وقت میں رسول اقدسؐ کی سب سے بڑی دشمن تھی۔ غزوہ بدر میں اس کا باپ عتبہ حضرت امیر حمزہؓ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا تو اس نے انتقام لینے کی ٹھانی، چنانچہ غزوہ احد سے پہلے وحشی کو اسی نے بدلہ لینے کیلئے تیار کیا تھا۔ خود عورتوں کے ایک وفد کی قیادت کرتی ہوئی احد میں شریک ہوئی۔ پھر وہ وقت آیا کہ فتح مکہ کے بعد اس نے اسلام قبول کر لیا۔ چھپتی ہوئی رسول کریمؐ کے پاس بیعت کیلئے آئیں۔ جب آپ نے اسلام کی شرائط میں ذکر فرمایا کہ زنا نہیںکرنا تو بے اختیار پکار اٹھیں کہ کیا آزاد عورت بھی ایسی گھٹیا حرکت کی مرتکب ہوسکتی ہے؟ اس خاتون کے بطن سے ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا ،جو عرب کی نہایت ذہین وفطین متحمل مزاج اور کامیاب سیاسی شخصیت تھی، جس کو دنیا امیر معاویہؓ کے نام سے جانتی ہے۔