امت رپورٹ:
گیم آن ہے ۔ مگر اصل کھیل سینیٹ الیکشن کے بعد شروع ہوگا۔ ذرائع کے مطابق فی الحال ارباب اختیار حلقوں میں سندھ اور بلوچستان کے ضمنی الیکشن کو لے کر پی ٹی آئی کی بدترین شکست کے اسباب پر غور کیا جارہا ہے۔ شکست متوقع تھی۔ لیکن اس قدر بڑے مارجن سے شکست ارباب اقتدار اور ارباب اختیار دونوں کے لئے پریشان کن ہے۔ ملیر کے صوبائی حلقے کی نشست پر سن اٹھارہ کے عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف کا امیدوار ہارا تھا۔ لیکن اس نے سولہ ہزار تین سو چھتیس ووٹ لئے تھے۔ یوں فتح یاب پی پی امیدوار سے اس نے لگ بھگ چھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست کھائی تھی۔ لیکن ضمنی الیکشن میں حد ہوگئی۔
پی ٹی آئی امیدوار محض پونے پانچ ہزار ووٹ لے کر اپنی ضمانت ضبط کرا بیٹھا۔ اور وہ پی پی کے کامیاب امیدوار سے لگ بھگ انیس ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارا۔ سانگھڑ کی نشست پی ایس تینتالیس کی کہانی حکمراں جماعت کے لئے اس سے بھی زیادہ بری رہی۔ جہاں پی ٹی آئی امیدوار نے تقریباً بیالیس ہزار ووٹوں کے پہاڑ مارجن سے شکست کھائی۔ اقتدار کی راہ داریوں اور طاقت کے مراکز تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے بقول اس شکست کے اسباب پر غور کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عمران خان کا کرشمہ ٹوٹ چکا ہے۔ عوام کی مایوسی میں اب غم و غصہ بھی شامل ہوچکا ہے۔ مگر سوچ اب بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو ہرصورت پانچ برس پورے کرانے ہیں۔
باقی کے ڈھائی سال کیسے پورے کرائے جائیں؟ اس کا اپ ڈیٹ لائحہ عمل سینیٹ الیکشن کے نتائج کو سامنے رکھ کر طے کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ اس پر ہے کہ کسی طرح سینیٹ الیکشن میں اکثریت حاصل کرلی جائے تاکہ ناگزیر قانون سازی کا راستہ ہموار ہو سکے کہ آئندہ انتخابات میں کسی اور حکومت کے آجانے سے یہ ممکن نہیں رہے گا۔ لیکن فوری چیلنج یہ ہے کہ سندھ کے ضمنی الیکشن میں حکومتی پارٹی کی بدترین شکست کے ازالے کے لیے پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی ضروری ہوگئی ہے۔ ویسے بھی اصل Battle Ground (میدان جنگ) پنجاب ہے۔ ذرائع کے مطابق ارباب اختیار سمجھتے ہیں کہ بالخصوص پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج سینیٹ الیکشن اور آئندہ عام انتخابات، دونوں پر مرتب ہوں گے۔ اس لئے آج ڈسکہ اور وزیر آباد میں سر دھڑکی بازی لگنے جارہی ہے۔ مستقبل کی سیاست کے لحاظ سے تحریک انصاف اور نون لیگ، دونوں کے لئے ان حلقوں میں کامیابی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ دیکھنا ہے کہ کون میدان مارتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اقتدار کو دوام بخشنے سے متعلق اب تک بنائے جانے والے تمام پلان ناکامی سے دو چار ہوئے ہیں۔ ان میں نون لیگ کو توڑنا سرفہرست تھا۔ لیکن اب تک ایسا نہ ہو سکا ہے۔ دوسری جانب ناکام حکومتی پالیسیاں ہیں اور عمران خان کی مقبولیت کی بال مسلسل نیچے کی طرف لڑھک رہی ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب منصوبوں کی جگہ امیدوں اور مفروضوں نے لے لی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک غیر یقینی کیفیت میں ہیں۔ ایسے میں سینیٹ الیکشن کے بعد نئے سرے سے لائحہ عمل طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس میں ان مختلف آپشنز پر غور کیا جائے گا کہ پی ٹی آئی حکومت کے باقی ماندہ ڈھائی برس کیسے پورے کرائے جائیں۔ کیونکہ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر وقت سے پہلے حکومت کو چلتا کیا گیا۔ چاہے اس کے لئے تحریک عدم اعتماد کا آئینی طریقہ ہی کیوں نہ استعمال کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کے بجائے بڑھے گا۔
ذرائع کے مطابق یہ ادراک کرلیا گیا ہے کہ اکنامی کے مثبت اشاروں سے متعلق تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود عوام کو فوری ریلیف دینے کا کوئی فوری نسخہ قابل عمل دکھائی نہیں دے رہا۔ لہٰذا یہ آپشن خارج از امکان ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اپنے اقتدارکے باقی ڈھائی برس پورے کرلے گی۔ چنانچہ ارباب اختیار سینیٹ الیکشن کے بعد سر جوڑ کر بیٹھیں گے کہ اس بیل کو منڈھے چڑھانے کے لئے دیگر قابل عمل آپشن کون کون سے ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق Worst to Worst (بد سے بدترین) سیناریو کے طور پر اس آپشن کو بھی زیر غور لایا جائے گا کہ پی ٹی آئی حکومت کا اتحاد پیپلز پارٹی سے کرا دیا جائے۔ یہ وہ سب سے پائیدار فارمولہ ہے۔ جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ تاہم ذرائع کے بقول یہ فارمولہ بد سے بدترین سیناریو میں ہی اپلائی کیا جائے گا۔ جب حکومتی مدت پوری کرانے سے متعلق دیگر تمام فارمولے اور آپشنز قابل عمل نہ رہیں۔ یہ فارمولہ اس سے پہلے بھی متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جسے پی ٹی آئی کے بعض اہم رہنمائوں کی حمایت حاصل تھی۔ تاہم وزیراعظم عمران خان اس میں رکاوٹ بن گئے تھے۔
وزیراعظم کا موقف تھا کہ آصف زرداری کی پارٹی کو حکومتی اتحاد کا حصہ بنانے سے کرپشن کے خلاف ان کا بیانیہ اس بری طرح متاثر ہوگا کہ اس کے اثرات پی ٹی آئی کی انتخابی سیاست کو لے ڈوبیں گے۔ تاہم ذرائع کے مطابق جب کشتی بالکل ڈوبنے لگے تو پھر ہر طرح کے سخت موقف میں بھی لچک آجاتی ہے۔ اسی لئے اس فارمولے کو بد سے بدترین سیناریو یعنی انتہائی مجبوری کے طور پر استعمال کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ کیونکہ نون لیگ اب قابو سے باہر ہوچکی ہے۔ اس کے قائدین کی تقاریر اور بیانیہ کی سختی برقرار ہے۔ خواجہ آصف اور شہباز شریف جیسے معتدل رہنما جیلوں میں ہیں۔ ایسے میں متبادل کے طور پر پیپلز پارٹی کے سواکوئی آپشن نہیں بچتا۔
ذرائع کے مطابق یہ آئیڈیا پیش کرنے والوں کا خیال ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد اگر پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کا اتحادی بنادیا جاتا ہے تو اس کے فوری ثمرات یہ ملیں گے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔ پی ڈی ایم کا عملاً خاتمہ ہوجائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت اپنا باقی ڈھائی سالہ اقتدار آسانی سے پورا کرلے گی۔ جبکہ چھوٹے اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے اسے نجات مل جائے گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سندھ جیسے اہم صوبے میں بھی حکومت کو اتحادی مل جائے گا۔ جہاں ضمنی الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی مزید مضبوط ہوئی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں سی پیک اور معاشی سرگرمیوں کے لئے سندھ صوبہ پہلے سے زیادہ اہم ہوچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق اگر اس فارمولے پر عمل کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو اس کے عوض پیپلز پارٹی کو یہ یقین دہانی کرائی جاسکتی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت مل جانے پر بھی اٹھارہویں ترمیم کی بنیادی شقوں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ تاہم ناگزیر ترامیم کرلی جائیں گی۔ احتساب قوانین، عدالتی اصلاحات اور انتخابی اصلاحات سمیت دیگر اہم قانون سازی میں پیپلز پارٹی کی مشاورت شامل کی جائے گی۔ سندھ حکومت کے لئے مشکلات کھڑی نہیں کی جائیں گی۔ مختلف کیسوں میں پی پی کی اعلیٰ قیادت کو ریلیف مل جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اس فارمولے کے تخلیق کاروں کو یقین ہے کہ پیپلز پارٹی کے سامنے جب بھی اس نوعیت کی پیشکش رکھی گئی، وہ انکار نہیں کرے گی۔ ماضی کا ٹریک ریکارڈ بھی ان کی اس سوچ کو تقویت دیتا ہے۔ جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے آٹھویں ترمیم کو صدر ضیا کی باقیات قرار دے کر ختم کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔ لیکن بعد میں پیپلز پارٹی نے اندرون خانہ صدر اسحاق سے سودے بازی کرلی تھی۔ اسی طرح سن ننانوے میں مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا تو بینظیر بھٹو نے مبارکباد دی تھی۔ دو ہزار چھ میں پیپلز پارٹی نے نون لیگ کے ساتھ مل کر مشرف کو نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگلے برس مشرف سے بینظیر بھٹو نے دبئی میں خفیہ ملاقات کرلی اور چند ماہ بعد این آر او لے لیا۔
دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد معزول چیف جسٹس کی بحالی کے معاملے پر یوٹرن لے لیا تھا۔ جبکہ اپوزیشن سے ہاتھ کرنے کی تازہ مثالیں صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین سینیٹ لانا اور بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت گرانا ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ویسے بھی اس وقت پیپلز پارٹی کا پس پردہ گیم یہ ہے کہ طاقت کے مراکز کسی طرح اسے آن بورڈ لے لیں۔ لہٰذا اگر سینیٹ الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کو حکومتی اتحادی بنانے کے فارمولے پر ارباب اقتدار اور ارباب اختیار کا اتفاق ہو جاتا ہے تو آصف زرداری لبیک کہنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔