تمام سیاسی جماعتیں مالی سال 2020-21 کے آڈیٹر سے تصدیق شدہ گوشوارے جمع کرائیں۔فائل فوٹو
تمام سیاسی جماعتیں مالی سال 2020-21 کے آڈیٹر سے تصدیق شدہ گوشوارے جمع کرائیں۔فائل فوٹو

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا دبائو مسترد کردیا

امت رپورٹ:
الیکشن کمیشن نے پریذائیڈنگ افسروں کی گمشدگی کے حقائق جانے بغیر اور تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے ووٹوں میں ممکنہ ردوبدل کا جائزہ لینے سے قبل این اے پچھتر ڈسکہ کے نتائج جاری نہ کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ اتوار کے روز بھی پی ٹی آئی کے رہنما نتائج کے فوری اعلان کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ ذرائع کے بقول پس پردہ بھی اس نوعیت کا اصرار کیا جارہا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے ہر طرح کا دبائو مسترد کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ان ہی صفحات پر ’’امت‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج غیر معمولی تاخیر سے ملنے کے حوالے سے ریٹرننگ افسر کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان خواجہ نے این اے پچھتر ڈسکہ (سیالکوٹ) کے حتمی نتائج منگل تک روکنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ پریذائیڈنگ افسروں کی گمشدگی کے حقائق اور تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں ممکنہ ردوبدل کا جائزہ لیا جاسکے تاہم تحریک انصاف کا دبائو ہے کہ حتمی سرکاری نتائج جلد جاری کئے جائیں۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی یہ مطالبہ اپنے رہنما عثمان ڈار کے اس دعوے کی بنیاد پر کر رہی ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اس حلقے میں ان کا پارٹی امیدوار علی اسجد ملہی مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے جیت چکا ہے۔ متنازع تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کی پراسرار گمشدگی کے سبب جب اس حلقے کے نتائج آنا بند ہوئے تھے تو اس وقت تک مجموعی تین سو ساٹھ پولنگ اسٹیشنوں میں سے تین سو سینتیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج آچکے تھے جس میں نون لیگ کی امیدوار نوشین افتخار کو ستانوے ہزار پانچ سو اٹھاسی ووٹ لے کر برتری حاصل تھی۔ جبکہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی کو چورانوے ہزار پانچ سو اکتالیس ووٹ ملے تھے۔ یوں لیگی امیدوار کو تین ہزار سینتالیس ووٹوں کی سبقت حاصل تھی۔

تاہم عثمان ڈار کا دعویٰ ہے کہ متنازعہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں سے علی اسجد ملہی نے مزید دس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ اس کے نتیجے میں لیگی امیدوار نوشین افتخار کی تین ہزار کی برتری ختم اور پی ٹی آئی امیدوار کو سات ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل ہوگئی تاہم الیکشن کمیشن نے حتمی نتائج کا اعلان روک کر پی ٹی آئی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اب ریٹرننگ افسر کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن نے کل یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا حتمی نتائج کو مزید روکا جائے۔ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرائی جائے یا پھر صرف متنازعہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں پر ری پولنگ کرادی جائے۔ اس لحاظ سے منگل کا روز بہت اہم ہے۔واضح رہے کہ نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ تاہم یہ الیکشن کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔

ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف متنازعہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں پر پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار اپنے امیدوار کی برتری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ وہیں اتوار کے روز ان ہی میں سے ایک پولنگ اسٹیشن نمبر بائیس کے نتائج کا فارم پینتالیس سامنے آیا ہے جس سے دھاندلی کے شکوک و شبہات کو تقویت ملتی ہے۔ واضح رہے کہ فارم پینتالیس میں تمام امیدواروں کو متعلقہ پولنگ اسٹیشن میں ڈالے جانے والے ووٹوں کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ ان ووٹوں کی تعداد لکھے جانے کے بعد پولنگ اسٹیشن کا انچارج (پریذائیڈنگ افسر) فارم پر اپنے دستخط اور مہر لگاتا ہے۔ پھر فارم پر تمام پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں کے دستخط لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہی فارم پینتالیس ریٹرننگ آفس میں جمع کرایا جاتا ہے۔ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول میں واقع پولنگ اسٹیشن نمبر بائیس کے منظرعام پرآنے والے فارم پینتالیس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد گیارہ سو پینتالیس درج ہے جبکہ فارم میں پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی کو ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد گیارہ سو پینسٹھ درج کردی گئی تھی۔ تاہم جب کسی نے نشاندہی کرائی کہ پولنگ اسٹیشن میں رجسٹرڈ ووٹوں سے زائد تعداد لکھ دی گئی ہے تو پھر عجلت میں اوور رائٹنگ کرتے ہوئے علی اسجد ملہی کے ووٹوں کی تعداد گیارہ سو اکیس کردی گئی۔ واضح رہے کہ لاپتہ ہونے والے پریذائیڈنگ افسروں میں مذکورہ پولنگ اسٹیشن نمبر بائیس کا پریذائیڈنگ افسر شامل تھا۔
ادھر ڈسکہ میں دھاندلی کو چھپانے یا کائونٹر کرنے کے لئے پی ٹی آئی کا نیا پلان بھی سامنے آگیا ہے۔ وزیرآباد (گوجرانوالہ) کے حلقے پی پی اکیاون میں ضمنی الیکشن کے دوران ووٹوں سے بھرے تھیلے سمیت پکڑے جانے والے پریذائیڈنگ افسر لیاقت علی بھٹہ کا ویڈیو بیان منظرعام پر آیا ہے۔ یاد رہے کہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا تھا۔ جس میں لیگی کارکنوں کی جانب سے ایک ایسے پریذائیڈنگ افسر کا گھیرائو دکھایا گیا تھا، جو ووٹوں سے بھرے تھیلے کے ساتھ ایک پرائیویٹ گاڑی میں کہیں روانہ ہورہا تھا۔ گھیرائو کرنے والوں کی جانب سے متعدد سوالات پر بھی حیران و پریشان پریذائیڈنگ افسر نے لب کشائی سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم دو روز کی خاموشی کے بعد اچانک مذکورہ پریذائیڈنگ افسر کا ویڈیو کلپ مارکیٹ میں آیا ہے۔ جس میں وہ بتارہا ہے کہ اسے اسلحہ کی نوک پر اغوا کیا گیا تھا اور اغوا کرنے والوں کو وہ پہنچانتا ہے۔ جو اس سے ووٹوں کا تھیلہ بھی لے کر فرار ہوئے تھے۔

دلچسپ امر ہے کہ ویڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران عقب میں بیٹھاکوئی نامعلوم شخص پریذائیڈنگ افسر کو مسلسل ڈکٹیشن کرارہا ہے کہ اسے کیا بولنا ہے۔ پس منظر سے آنے والی یہ آواز واضح ہے۔ اگرچہ پریذائیڈنگ افسر نے نون لیگ یا کسی اور کا نام نہیں لیا۔ تاہم ایک اہم لیگی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ڈسکہ میں پریذائیڈنگ افسروں کی گمشدگی کے سبب پی ٹی آئی کو جو سبکی اٹھانی پڑ رہی ہے۔ اسے کائونٹر کرنے کے لئے وزیرآباد (گوجرانوالہ) کے ضمنی الیکشن کے دوران ووٹوں سے بھرے تھیلے سمیت پکڑے جانے والے پریذائیڈنگ افسر کے ذریعے نون لیگ پر ملبہ ڈالنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے۔

اسی تناظر میں پریذائیڈنگ افسر کا ویڈیو کلپ تیار کرایا گیا اور اس سے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے نام ایک درخواست بھی لکھوائی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’انیس فروری کے ضمنی الیکشن میں ورچوئل یونیورسٹی وزیر آباد پولنگ اسٹیشن نمبر بیانوے میں بطور پریذائیڈنگ افسر میری ڈیوٹی لگی تھی۔ پولنگ کے اختتام پر چند شر پسند عناصر نے مجھے اسلحے کے زور پر یرغمال بنالیا اور رزلٹ کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں ویڈیو بناکر میڈیا پر وائرل کردی۔ کار سرکار کو تہ و بالا کیا گیا۔ میری ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ اور قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ مہربانی فرماکر ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن ضلع گوجرانوالہ کو لکھا جائے کہ ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے‘‘۔

لیگی عہدیدار کے مطابق یہ پریذائیڈنگ آفیسر تحریک انصاف کا ہمدرد اور سپورٹر ہے۔ آگے چل کر اس سے کہلوایا جائے گا کہ اسے اسلحے کے زور پر لے جانے والے نون لیگی ورکرز تھے۔ یوں رنگے ہاتھوں چوری چھپانے کے لیے ایک نئی کہانی گھڑ کر ملبہ الٹا نون لیگ پر ڈالنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ’’امت‘‘ نے اپنے طور پر جو تحقیق کی۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ مذکورہ پریذائیڈنگ آفیسر لیاقت علی بھٹہ پی ٹی آئی کا سپورٹر ہے۔ اس سلسلے میں جب لیاقت علی بھٹہ کی فیس بک تک رسائی حاصل کی گئی تو وہاں پی ٹی آئی کے حق میں پوسٹوں کی بھرمار تھی۔
اس سارے معاملے پر سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ڈسکہ میں ضمنی الیکشن کے دوران جو کچھ ہوا۔ اس نے کراچی کی یاد دلادی۔ ایم کیو ایم الطاف کے دور میں بھی کراچی کے الیکشن میں تشدد عام تھا اور پولنگ کا عملہ اغوا کرلیا جاتا تھا۔ اب اس کی بنیاد پنجاب میں بھی رکھ دی گئی ہے، جو افسوسناک ہے۔ کنور دلشاد کے بقول لاپتہ ہونے والے پریذائیڈنگ افسروں کے خلاف خود الیکشن کمیشن کو ایف آئی آر درج کرانی چاہیے۔ جب یہ معاملہ عدالت میں جائے گا تو تب ہی پریذائیڈنگ افسر سچ بتائیں گے کہ انہیں کون لے کر گیا تھا۔ ان پریذائیڈنگ افسروں کے خلاف آئین کے آرٹیکل دو سو اٹھارہ کی خلاف ورزی کامقدمہ بھی درج ہوسکتا ہے۔

اسی طرح الیکشن کمیشن کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرانی چاہیے۔ کنور دلشاد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں بھی بھارت کی طرز کا بااختیار الیکشن کمیشن ہوتا، تو ڈسکہ واقعہ پر اب تک وزیراعلیٰ پنجاب، چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب جیل میں ہوتے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان خواجہ کی تعریف کرتے ہوئے کنور دلشاد نے کہا کہ پاکستان میں پہلی بار ایک جرات مند چیف الیکشن کمشنر آیا ہے۔ لہٰذا پوری توقع ہے کہ وہ دبائو کے بغیر فیصلہ کریں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ متنازعہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں میں دوبارہ پولنگ کرادی جائے۔