رپورٹ:عظمت خان:
پی ایس ایل میچز کی وجہ سے راستے بند کرنے کے بارے میں علمائے کرام کا کہنا ہے کہ عوام الناس کو تکلیف پہنچانا ناجائز عمل ہے۔ اسلام میں تو سونے والے کے سرہانے اونچی آواز میں تلاوت کرنے اور کسی کو تکلیف پہنچا کر حجر اسود کے بوسے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ راستے بند کرنے کو شریعت میں نا پسند فرمایا گیا ہے۔علمائے کرام کا کہنا ہے عوام الناس کو تکلیف پہنچانے پر توبہ استغفار کی جائے اور راستے کھولیں جائیں۔
اس حوالے سے سنی علما کونسل کے چیئرمین مولانا اشرف گورمانی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نبی کریمﷺ کی تعلیمات یہ ہیں کہ اگر راستے کی رکاوٹ دور کرنے پر مسجد کو گرانا پڑے، تو گرایا جائے اور مفاد عامہ اور راست عامہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ ہی راستوں کو بند کیا جائے۔ حکومت کی بے حسی ہے کہ وہ ایک جانب کچھ لوگوں کی تسکین کا سامان کرنے کیلئے کرکٹ میچ منعقد کر رہی ہے اور دوسری جانب ایک کثیر تعداد میں عوام کو تنگ بھی کر رہی ہے۔ ایسے لوگ عنداللہ پکڑے جائیں گے، جن کے ہوتے ہوئے لوگ روڈوں پر ہی جانیں دے رہے ہیں۔ حکومت اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور سڑکیں بند نہ کرے۔
جامعہ مخزن العلوم بنارس کے مہتمم و مذہبی اسکالر مولانا ڈاکٹر قاسم محمود نے پی ایس ایل کی سرگرمیوں کے نتیجے میں عوام کو پہنچنے والی تکالیف کے ردعمل میں شرعی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مسلمان کو تکلیف و ایذا پہنچانا اور ایسے عمل کرنا جس سے اجتماعی طور پر عوام پریشان ہوتے ہوں، بالکل نہیں کرنے چاہیئیں۔ مولانا ڈاکٹر قاسم محمود کا کہنا تھا کہ پولیس کا کام عوام کے جان و مال کا تحفظ تھا، مگر پولیس کھیلوں کی سرگرمیوں کے پروٹوکول میں مصروف ہے جس کی وجہ سے ڈاکو اور چور سرگرم ہیں۔ حضور پاکﷺ کی تعلیمات کے مطابق کسی کو تکلیف دینا تو دور کی بات، فرات کے کنارے مرنے والے کتے کی موت کے ذمہ دار بھی خلیفہ وقت ہوتے تھے۔ جبکہ اب ریاست مدینہ کے دعویداروں نے عوام کیلئے ہر آزمائش اور تکلیف کا انتظام کرنا خود پر فرض کر لیا ہے۔
خبیب اسلامک ریسرچ سے وابستہ مولانا اعجاز حیات کا کہنا تھا کہ اسلام نے حقوق و واجبات کی فہرست میں راستوں کے حق کا اضافہ کیا ہے اور راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کے ہٹانے کو عبادت قرار دیا ہے۔ اسلام نے ترک ایذا کو عبادات پر بھی مقدم کیا ہے۔ چناں چہ فقہا نے جہاں کوئی سو رہا ہو، وہاں بلند آواز سے تلاوت تک کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح حجر اسود کو بوسہ دینا جو کہ سنت ہے، لیکن اگر حجر اسود تک پہنچنے میں دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اسلام حجر اسود کے بوسہ تک کو ترک کرنے کی تعلیمات دیتا ہے۔ جب اسلام ترک ایذا کے لیے عبادات تک کو ترک کرنے کا حکم دیتا ہے، تو کرکٹ جیسے کھیل کی وجہ سے مریضوں، مسافروں اور شہریوں کو تکلیف دینا اور فرض عبادات کی اداییگی سے روکنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اس لیے حکومت کو اپنے عمل پر سوچنا چاہیئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ کھیل کود کے میدانوں کو شہر سے باہر منتقل کرے۔ تاکہ کھیلوں کی سرگرمیاں بغیر کسی کو تکلیف پہنچائے جاری رہ سکیں۔
جامعہ خدیجتہ الکبری کے شیخ الحدیث مولانا دائود خان کا کہنا تھا ریاست مدینہ کے نام نہاد دعویدار حکمران یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ عوام کو ہر طرح سے تکلیف پہنچانی ہے۔ اسلام راستوں کو بند کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے اور سختی سے ایسے عمل سے منع کیا گیا ہے جس سے راستے بند ہوتے ہوں اور عوام کو تکلیف پہنچتی ہو۔
مدرسۃ المسلم کے مہتمم مولانا تنویر احمد اعوان کا کہنا تھا کہ شریعت تو اس حد تک پابند کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی کا راستہ بند نہ کرے اور انسانیت کی تو اس حوالے سے اتنی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ اگر کہیں راستے میں مسجد رکاوت بنی ہو تو اس کو گرا دیا جائے مگر عوامی گزر گاہ کو بند نہ کیا جائے۔ انسانیت کا خیال شریعت میں اس قدر رکھا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کا 80 فیصد دار و مدار انسان کا دوسرے انسان سے ہے یعنی حقوق العباد سے ہے۔ لہٰذا اگر پی ایس ایل کی وجہ سے نمازیوں، طلبہ اور مسافروں کے راستے بند کیئے گئے ہیں تو یہ اقدام حکومت کا غیر آئینی اور غیر شرعی ہے۔ چناں چہ فوراً راستے کھولے جائیں۔
واضح رہے کہ عدالت نے پی ایس ایل کی وجہ سے اسٹیڈیم کے اطراف سڑکوں کو بند رکھنے پر پابندی عائد کی تھی اور حکومت کو پابند کیا تھا کہ راستے فی الفور کھولیں جائیں۔ تاہم اب تک میچ کے روز صبح سے شام تک اطراف کی سڑکیں بلاک کر کے شہریوں کو مسلسل تکلیف سے دوچار کیا جا رہا ہے۔