امت رپورٹ:
ڈسکہ کے تیئیس متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں کے اصل نتائج میں بھی نون لیگی امیدوار کو اٹھارہ سو سے زائد کی سبقت کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے شواہد نون لیگ نے الیکشن کمیشن میں جمع کرادیئے ہیں ۔ جس سے پی ٹی آئی کے عثمان ڈار کے اس دعوے کی مکمل طور پر نفی ہوتی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کو بھی دیگر تین سو سینتیس پولنگ اسٹیشنوں کے رزلٹ کے ساتھ ملالیا جائے تو ان کی پارٹی کے امیدوار کو سات ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری مل جائے گی۔
این اے پچھتر ڈسکہ کے پورے حلقے میں ضمنی انتخاب دوبارہ ہوگا یا صرف متنازعہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں پر ری پولنگ کرادی جائے گی؟ اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے آج متوقع ہے۔ تاہم اس دوران یہ اہم انکشاف ہوا ہے کہ متنازعہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں سے بھی ، جن کے پریذائیڈنگ افسر پراسرار طور پرغائب ہوگئے تھے، نون لیگ کو اٹھارہ سو سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ واضح رہے کہ اعلان کردہ تین سو سینتیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں نون لیگی امیدوار نوشین افتخار کو پہلے ہی تین ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری حاصل ہے جسے پی ٹی آئی نے بھی تسلیم کیا۔ یوں اگر تیئیس متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں کے اٹھارہ سو سے زائد ووٹوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو پی ٹی آئی امیدوار علی اسجد ملہی کے مقابلے میں نون لیگی امیدوار کی برتری لگ بھگ پانچ ہزار ووٹوں کی بنتی ہے۔
مستند لیگی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ ان کی پارٹی کے پاس ڈسکہ کے تمام تین سو ساٹھ پولنگ اسٹیشنوں کے فارم پینتالیس موجود ہیں۔ فارم پینتالیس ایسی دستاویز ہے، جس میں درج اعدادو شمار کو قطعی تصور کیا جاتا ہے، اگر ان فارم پینتالیس پر تمام پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کے دستخط موجود ہوں۔ کوئی بھی پریذائیڈنگ افسر اس وقت تک اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشن سے گنتی شدہ ووٹوں کا تھیلے لے کر نہیں نکل سکتا، جب تک وہ فارم پینتالیس پر اپنے سائن اور مہر لگانے کے بعد تمام پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہیں کرالیتا۔
یاد رہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں دھاندلی کو لے کر اپوزیشن پارٹیوں نے جو الزام لگایا تھا، اس میں بنیادی نکتہ یہی تھا کہ ملک کے ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پر ان کے پولنگ ایجنٹوں کو فارم پینتالیس نہیں دیئے گئے تھے۔ کیونکہ ان پارٹیوں کے بقول پی ٹی آئی کو کامیاب کرانے کے لئے فارم پینتالیس پر مرضی کے نتائج درج کئے گئے تھے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ اس بار پی ٹی آئی نے بالکل نیا کھیل کھیلا۔ این اے پچھتر ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں متنازعہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں سمیت تمام تین سو ساٹھ پولنگ اسٹیشنوں کے فارم پینتالیس تو نون لیگ، تحریک لبیک پاکستان اور آزاد امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو فراہم کیے گئے۔
لیگی ذرائع کے بقول واردات یہ کی گئی کہ بعد میں تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے اصل فارم پینتالیس کی جگہ جعلی فارم پینتالیس میں من پسند ردوبدل کرکے پی ٹی آئی امیدوار کے ووٹوں میں اس قدراضافہ کردیا گیا کہ انہیں نون لیگی امیدوار پر سات ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری مل گئی۔ ذرائع کے مطابق نون لیگ نے تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے اصل فارم پینتالیس، جن پر تمام پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے دستخط موجود ہیں، الیکشن کمیشن میں جمع کرادیئے ہیں۔ لیگی قیادت کو یقین ہے کہ ان ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ کرے گا۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے صرف تیئیس متنازعہ پولنگ اسٹیشنوں پر ہی ری پولنگ کا فیصلہ کیا تو اسے پی ٹی آئی خوشی سے تسلیم کرلے گی اور اس کی کوشش بھی یہی ہے کہ الیکشن کمیشن پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کے بجائے صرف تیئیس پولنگ اسٹیشنوں میں ری پولنگ کا حکم دیدے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ تیئیس پولنگ اسٹیشن قاف لیگ کے بااثر صوبائی وزیر محمد رضوان المعروف بائو رضوان کے زیراثرعلاقوں میں واقع ہیں۔
ذرائع کے مطابق ڈسکہ میں ضمنی الیکشن سے قبل بھی پی ٹی آئی نے اپنی اتحادی قاف لیگ سے مدد مانگی تھی۔ حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے براہ راست چوہدری پرویز الٰہی سے درخواست کی تھی کہ سیالکوٹ کی صوبائی حلقے پی پی اکتالیس سے کامیاب قاف لیگ کے ایم پی اے بائو رضوان کو پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی کو سپورٹ کرنے کی ہدایت کی جائے۔ جس پر چوہدری پرویز الٰہی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بائو رضوان ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی امیدوار کو سپورٹ کریں گے۔
ذرائع کے مطابق اس امید پرکہ الیکشن کمیشن ڈسکہ کے تیئیس پولنگ اسٹیشن میں ری پولنگ کا حکم دے سکتا ہے۔ ایک بار پھر پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے چوہدری پرویزالٰہی سے رابطہ کرکے بائو رضوان کی سپورٹ مانگی ہے۔ بائو رضوان نے گزشتہ برس وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کابینہ میں بطور صوبائی وزیر حلف اٹھایا تھا۔ انہوں نے دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں نون لیگ کے مضبوط گڑھ پی پی اکتالیس سے کامیابی حاصل کی تھی۔ علاقے میں ان کا خاصا ووٹ بینک ہے۔
ادھر انیس فروری کو ڈسکہ میں ضمنی الیکشن کے دوران کیا ہوتا رہا۔ اس حوالے سے کچھ نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے پچھتر ڈسکہ کی حدود میں آنے والے صوبائی حلقے پی پی پینتیس سے دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے نون لیگی رہنما رانا عارف اقبال ہرناہ کا کہنا ہے ’’ میں حلفاً کہتا ہوں ۔ ایسا کبھی ایم کیو ایم کے دور میں کراچی میں بھی نہیں ہوا ہوگا جو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے کیا۔‘‘ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسلحہ بردار موٹر سائیکل سواروں کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، یہ رانا عارف اقبال اوران کے ساتھیوں نے مل کر بنائی تھیں۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے رانا عارف اقبال ہرناہ کا مزید کہنا تھا ’’انیس فروری کے دن ہم نے سرکاری گنوں کے ساتھ پرائیویٹ گنوں کا بھی سامنا کیا۔ ایک طرح سے ہمارے ووٹرز نے جان پر کھیل کر ووٹ ڈالا۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ وہ واپس گھر جاسکیں گے کہ نہیں۔ میں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کیونکہ حلقے میں میری ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ خاص طور پر ڈسکہ شہر میں پی ٹی آئی کے اسلحہ برداروں نے ہمارے کم از کم تیس سے پینتیس ہزار ووٹروں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا۔ ڈسکہ شہر نون لیگ کا مضبوط سیاسی گڑھ ہے۔ پی ٹی آئی کے اسلحہ بردار موٹر سائیکل سوار شہر میں دندناتے پھر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں لیگی ووٹر خوف و دہشت کے اس ماحول میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے۔
پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہ تھی کہ پولنگ شروع ہونے کے فوری بعد صبح کے وقت ہی اس کے جتنے بھی ووٹ ہیں ، وہ کاسٹ کرادیے جائیں۔ بعد ازاں فائرنگ اور دنگا کرکے لیگی ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھا جائے۔ میری ڈیوٹی مالومہ یونین کونسل کے گائوں کسو والا میں تھی۔ اس یونین کونسل میں نوپولنگ اسٹیشن ہیں، جہاں سابق چیئرمین کونسل چوہدری اقبال راں کو پی ٹی آئی نے لیگی ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھنے کا ٹاسک دے رکھا تھا۔
گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب مجھے گورنمنٹ اسکول کسووالا میں واقع ایک پولنگ اسٹیشن سے لیگی کارکنوں کی فون کالیں موصول ہونے لگیں کہ یہاں گڑبڑ ہورہی ہے۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کلاشنکوف سے مسلح نو افراد نے پولنگ اسٹیشن کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور لیگی ووٹرز کو اندر نہیں جانے دیا جارہا۔ اندر سابق چیئرمین کونسل چوہدری اقبال راں بیٹھے تھے۔ میں اور دیگر لیگی ورکرز چونکہ نہتے تھے ، لہٰذا کچھ کرنے سے قاصر تھے۔ تاہم میں نے اس موقع پر اپنے لڑکوں کو کہا کہ موبائل فون سے ویڈیوز بنالو۔ مسلح افراد نے جب یہ دیکھا کہ ان کی ویڈیوز بن رہی ہیں تو ان میں سے بعض ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ نکلے۔ تاہم ہم نے پھر بھی تین چار ویڈیوز بنالیں۔ یہ وہی ویڈیوز ہیں، جو بعد میں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وائرل ہوئیں۔ اس موقع پر ہم نے کسووالا کے متعلقہ ایس ایچ او یوسف کو ٹیلی فون بھی کیا۔ تاہم ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ صرف ایک پولنگ اسٹیشن کی کہانی نہیں۔ انیس فروری کے روز ڈسکہ کے درجنوں پولنگ اسٹیشنوں پر یہی منظر تھا۔
رانا عارف اقبال ہرناہ کے بقول ان کے پاس یہ انفارمیشن پہنچی ہے کہ ایک صوبائی منسٹر نے پرائیویٹ محفل میں اپنے لوگوں سے کہا کہ ڈسکہ میں پی ٹی آئی نہیں ہار رہی بلکہ امیدوار ہار رہا ہے۔ کیونکہ انہوں نے تو علی اسجد ملہی کو اوپن پرچیاں دے دی تھیں کہ جس قدر ووٹ کاسٹ کراسکتے ہو، کرالو۔لیکن پی ٹی آئی کا امیدوار ہی نااہل نکلا اور اس کھلے ایڈوانٹیج سے پورا فائدہ نہیں اٹھاسکا۔ جس پر عجلت میں تیئیس پولنگ اسٹیشنوں پر بھونڈے انداز سے گڑبڑ کرنی پڑی کہ بات چھپی نہ رہ سکی۔
رانا عارف اقبال کے بقول پی ٹی آئی کو شک تھا کہ نون لیگ سات سے آٹھ ہزار کی برتری سے جیت رہی ہے۔ لہٰذا عقل کے اندھوں نے جلد بازی میں تیئیس پولنگ اسٹیشنوں میں اس قدر زیادہ جعلی ووٹ بھگتائے کہ تین سو سینتیس پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کی شرح تینتیس فیصد تھی۔ جبکہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں پر یہ شرح اٹھاسی فیصد بن گئی۔ میں امریکہ میں دس برس رہا ہوں۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی ووٹ ڈالنے کی شرح اتنی نہیں ہوتی۔ اصل میں قدرت نے پی ٹی آئی کا چہرہ بے نقاب کرنا تھا۔ لہٰذا پی ٹی آئی نے اس بھونڈے طریقے سے دھاندلی کی کہ خود ان کے اپنے لوگ بھی بند کمروں میں ماتھا پیٹ رہے ہیں۔ اس سوال پرکہ اگر تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے دستخط شدہ فارم پینتالیس نون لیگ کے پاس موجود ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے میں دشواری نہیں ہوگی اور یہ کہ ایسی صورت میں پی ٹی آئی جعلی فارم پینتالیس کیسے بناسکتی ہے؟
رانا عارف اقبال کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جو جعلی فارم پینتالیس بناکر اپنی ہزاروں کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پر پولنگ ایجنٹوں کے جعلی دستخط بھی کئے گئے ہیں۔ اسی لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے فارم پینتالیس کا فرانزک تجزیہ کرایا جائے۔ اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اس سوال پر کہ اگر تیئیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں بھی نون لیگ کو برتری حاصل ہے تو پھر مریم نواز پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ کیوں کر رہی ہیں؟
رانا عارف اقبال نے بتایا کہ نون لیگ یہ مطالبہ اس لئے کر رہی ہے کہ خوف و دہشت کی فضا کے سبب ڈسکہ شہر میں نون لیگ کے جو تیس سے پینتیس ہزار ووٹ نہیں ڈالے جاسکے، دوبارہ الیکشن کی صورت میں یہ سارے ووٹ بھی اسے مل جائیں تاکہ پی ٹی آئی امیدوار کو چالیس سے پچاس ہزار کی برتری سے شکست دی جاسکے۔