فائل فوٹو
فائل فوٹو

مغافری کا یہودی میزبان

امام ذہبیؒ نے اپنی انسائیکلو پیڈیا (سیر اعلام النبلائ) میں ایک تاریخی واقعہ بیان کیا ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اندلس میں حَکم کے دور حکومت میں فقہاء نے بغاوت کردی۔ ان میں پیش پیش اور نمایاں شخصیت طالوت معافری کی تھی۔ لیکن یہ بغاوت ناکام ہوگئی۔ جس کی وجہ سے تمام لوگ منتشر ہوگئے اور ادھر ادھر روپوش ہوگئے۔ طالوت معافری ایک سال تک ایک یہودی کے گھر میں چھپے رہے۔ ایک سال بعد جب حالات پرسکون ہوگئے تو طالوت یہودی کے گھر سے باہر نکلے اور وزیر ابوالسبام کے گھر کی طرف اس امید کے ساتھ روانہ ہوئے کہ وہ انہیں اپنے گھر قیام کی اجازت دیدے گا اور ان کی حفاظت کرے گا۔ لیکن ظالم وزیر انہیں گھر چھوڑ کر حَکم کے پاس پہنچ گیا اور ان سے کہا کہ ’’ایک موٹے تازے مینڈھے کے متعلق امیر محترم کی کیا رائے ہے؟ جس پر مکمل ایک سال گزر چکا ہے۔‘‘ حَکم نے کہا: اس کا گوشت بھاری اور ثقیل ہوگا۔ کیا بات ہے؟ وزیر نے کہا۔ طالوت اس وقت میرے پاس ہے۔ حکم نے طالوت کو حاضرکرنے کا حکم دیا۔ جب وہ حاضر ہوئے تو حکم نے پوچھا ’’اے طالوت مجھے بتایئے کہ اگر آپ کے والد یا آپ کا بیٹا اس ریاست کا بادشاہ ہوتا تو کیا آپ کے ساتھ میںنے جو سلوک کیا ہے، اس سے زیادہ عزت و تکریم کا سلوک آپ کرتے؟ آپ میرا خون ہی بہا دیتے۔‘‘ یہ بات سن کر طالوت نے اپنے دل میں کہا۔ ’’سچ سے اچھی بات کوئی نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے کہا ’’میں تم سے خدا کے لئے نفرت کرتا تھا، اس لئے اس کے علاوہ دوسروں کے لئے جو سلوک تو نے میرے ساتھ کیا ہے وہ سلوک مجھے ایسا کرنے سے باز رکھتا۔ مجھے اس کا اعتراف ہے۔ خدا تعالیٰ تمہاری اصلاح فرمائے۔‘‘ یہ بات سن کر حکم نے ناگواری محسوس کی اور خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے کہا ’’آپ ایک سال سے کہاں تھے؟‘‘

انہوں نے کہا: ’’میں ایک سال سے ایک یہودی کے گھر میں تھا۔ خدا تعالیٰ نے میری حفاظت فرمائی۔ ظفر بیگ (ابوالسبام) کے پاس تو میں خود اپنی مرضی سے گیا تھا۔‘‘ یہ سن کر حکم نے افسوس سے اپنا سر جھکا لیا۔ پھر اپنا سر اٹھایا اور ابوالسبام کی طرف متوجہ ہوکر بولا ’’ان کو ایک یہودی نے پناہ دی اور ان کے علم و فضل اور مذہبی مقام کی قدر کرتے ہوئے ان کی حفاظت کی۔ لیکن جب یہ تمہارے پاس آئے تو تم نے ان کے ساتھ غداری کی اور تمہارے ضمیر نے یہ گوارا کرلیا۔ قیامت کے دن اگر میں تمہارا چہرہ دیکھوں بھی تو خدا نہ دکھائے۔ اس کے بعد ابوالسبام کو اپنے دربار سے الگ کر دیا اور یہودی کو ایک حکم نامہ لکھا جو جزیے کی معافی سے متعلق تھا۔ اس کے علاوہ بھی اسے مزید نوازا اور اس کے ساتھ بہتر سلوک کیا۔ جب اس یہودی نے یہ سب دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوا اور اسلام قبول کرلیا۔ جب لوگ بڑے ہوجاتے ہیں، انہیں بڑا عہدہ حاصل ہو جاتا ہے تو چھوٹے لوگوں سے بچنے لگتے ہیں، بلکہ انہیں ناپسند اور ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ ایک شخص حاکم وقت کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ پھر بغاوت ناکام ہو جاتی ہے تو چھپنے کی کوشش کرتاہے۔ اس دوران اسے دو بالکل مختلف قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک شخص اس کا مذہبی و دینی اعتبار سے مخالف ہے، لیکن اس کی شرماست و مردانگی اسے اس بات کا حکم دیتی ہے کہ وہ اس شخص کے لئے اپنے گھر میں وسعت پیدا کرے، اسے جائے پناہ فراہم کرے اور اس طرح وہ اس کو ایک سال تک اپنے گھرمیں رکھتا ہے۔ حالانکہ اس میں اس کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ لیکن اس نے اس خطرے کو منظورکیا اور رضامندی سے قبول کیا۔ دوسری طرف اس امید کے ساتھ جاتا ہے کہ شاید وہ امن اور جان کی امان کی صورت پیدا کرادے اور اپنے توسط سے حاکم وقت سے اس کو معافی دلوادے، لیکن وزیر رازکھول دیتا ہے اور حاکم کو اس ’’مطلوب مجرم‘‘ کی موجودگی کی خبرکردیتا ہے۔ اس لالچ میں کہ شاید اس طرح اس کو حاکم وقت کچھ اور اختیارات سے نواز دے گا۔ لیکن حاکم وقت ان حضرت فقیہ کو معاف کر دیتا ہے اور ان سے پوچھتا ہے کہ حضرت آپ ایک سال سے کہاں تھے؟ جواب ملتا ہے کہ ایک یہو دی کے گھر میں تھا۔ اس لمحے حاکم کے دل میں ایک خیال گزرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ’’ایک یہودی ایک شخض کی اس کے علم و فضل کی وجہ سے حفاظت کرتا ہے اور وہی صاحب علم و فضل وزیر کے پاس پناہ کے لئے جاتا ہے تو اسے حاکم کے حوالے کردیتا ہے۔‘‘ چنانچہ حاکم فیصلہ کرتا ہے کہ یہودی کو اس کے اخلاقی عمل کی وجہ سے انعام سے نوازا جائے اور وزیر کو دربار سے دھکے دے دیتا ہے۔ یہودی اپنے ساتھ اس سلوک کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہ ضروری خیال کرتا ہے کہ وہ اپنے قبول اسلام کا اعلان کرے۔ کیونکہ اس نے اعلیٰ انسانی کردار کی قدر جان لی تھی اور اس دین اور اس کی اقدار سے وہ واقف ہوگیا تھا۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ اسلام قبول کرلینا چاہئے تاکہ اس کا حق ادا کرسکے۔ یہودی اپنے حسن عمل کی وجہ سے عزت و تکریم کا مستحق قرار پایا اور وزیر اپنے بھونڈے کردار کی وجہ سے دربار سے دھتکار دیئے جانے کے قازبل قرار پایا۔ (معاصر الدعوۃ)