امت رپورٹ:
سینیٹ الیکشن میں عبدالحفیظ شیخ کی شکست سے جہاں حکومت پریشان ہے۔ وہیں سب سے زیادہ مایوسی آئی ایم ایف کو ہوئی ہے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹ میں کامیاب کراکے آئی ایم ایف پاکستان کے ایوان بالا میں اپنے خاص بندے کے چھ برس پکے کرانا چاہتا تھا۔ بات یہیں تک رہتی تو پھر بھی قابل برداشت تھی کہ اس سے قبل بھی عبدالحفیظ شیخ تین بار سینیٹر رہ چکے ہیں۔ تاہم اس بار انہیں آگے چل کر چیئرمین سینیٹ بنانے پر بھی غور کیا جارہا تھا۔ اس پلان کے خدوخال سے بہت سے بڑے مطمئن نہیں تھے۔
ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ کو کامیاب کرانے کے لئے آئی ایم ایف نے سینیٹ الیکشن سے سولہ روز پہلے پچاس کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کا اعلان کیا۔ حکومت نے اس کا سارا کریڈٹ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی کوششوں کو دیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے ترقیاتی فنڈز کے نام پر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کو وزیراعظم نے جو فی کس پچاس کروڑ روپے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ رقم آئی ایم ایف کی جاری کردہ اسی پچاس کروڑ ڈالر کی قسط میں سے ادا کی جانی ہے۔ فی کس پندرہ کروڑ روپے پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ کو ادا کیے جاچکے ہیں۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا چھ ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن آئی ایم ایف کا یہ پروگرام گزشتہ برس جنوری یعنی ایک برس سے زائد عرصے سے تعطل کا شکار تھا۔ تاہم پچھلے ماہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں ایک اور پیکیج اور اصلاحات پروگرام پر اتفاق ہوگیا ہے۔ جس کے تحت پچاس کروڑ ڈالر کی تیسری قسط جاری کی جائے گی۔ اس ڈویلپمنٹ کو عبدالحفیظ نے پاکستان کی ترقی کی طرف پیش رفت قرار دیا تھا۔ چھ ارب ڈالر کے قرضے میں سے اب تک پاکستان کو دو اقساط میں ایک ارب پینتالیس کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عبدالحفیظ کی شکست کے اثرات پاکستان کو ملنے والے آئی ایم ایف کے قرضے کی آئندہ اقساط پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب پالیسی سازوں سے رسم و راہ رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹ کا ٹکٹ بھی آئی ایم ایف کے دبائو پر دیا گیا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹر منتخب کراکے فی الحال وزیر خزانہ ہی رکھا جائے گا تاکہ غیر منتخب افراد کو اہم قلمدان دیئے جانے سے متعلق اعتراضات ختم کئے جاسکیں اور دوسرا یہ کہ آگے چل کر جب عبدالحفیظ شیخ کو وزارت خزانہ میں رکھے جانے کی ضروت پوری ہوجاتی تو انہیں چیئرمین سینیٹ بنانے کی کوشش بھی پلان کا حصہ تھی۔ تاہم یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں عبدالحفیظ شیخ سے استعفیٰ لینے کا دبائو بڑھ جائے گا۔
ذرائع کے بقول اس شکست میں خود پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی ناراضی تو ایک فیکٹر تھا ہی کہ حکمراں پارٹی کے بیشتر ایم این ایز کو شکایت تھی کہ وزیراعظم نے پارٹی کے نظریاتی اور سیاسی لوگوں کو نظر انداز کرکے ایک ایسے غیر منتخب شخص کو سینیٹ ٹکٹ دے دیا، جنہوں نے کبھی پی ٹی آئی ایم این ایز سے سلام دعا تک کرنا گوارا نہ کی تھی۔ جبکہ شکست کا دوسرا بڑا سبب یہ تھا کہ اہم حلقوں نے عبدالحفیظ شیخ کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی کو ترجیح دی۔ ان کے نزدیک یوسف رضا گیلانی جیسے بھی ہیں۔ کم از کم پاکستان سے ان کی کمٹمنٹ تو ہے۔ عبدالحفیظ شیخ کی طرح وہ کلی طور پر واشنگٹن اور عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنڈے پر نہیں، جو ہر حکومت کے خاتمے کے دوسرے روز بیرون ملک روانہ ہوجاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اگرچہ عبدالحفیظ شیخ پہلے بھی تین بار سینیٹر رہ چکے ہیں۔ واشنگٹن کی فرمائش پر دو بار انہیں مشرف دور میں سینیٹر بنایا گیا تھا۔ اور بعد ازاں پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں پھر انہیں ایوان بالا میں پہنچایا گیا۔ لیکن چوتھی بار مزید چھ برس کے لئے عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹ میں بٹھانے اور خاص طور پر چیئرمین سینیٹ بنائے جانے کے پلان نے سب کے کان کھڑے کر دیئے۔ پچھلے پچاس برس سے اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی پس پردہ سرگرمیوں سے واقف ایک سینئر بیوروکریٹ کے بقول پاکستان میں تین اہم سول منصب واشنگٹن کی آشیر بادکے بغیر نہیں ملتے۔
وزیراعظم اور وزیر خارجہ تو امریکہ لاتا ہی اپنی پسند کا ہے۔ لیکن خاص طور پر وزیر خزانہ وہ اپنا چاہتا ہے۔ تاکہ پاکستان کی معیشت کو اپنی مٹھی میں رکھ سکے۔ کچھ منظوریاں بڑوں کی منشا کے خلاف بھی ہوجاتی ہیں۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں حسین حقانی کو امریکی سفیر لگانا۔ اسی طرح آصف زرداری بھی اپنے دور میں واشنگٹن کے قریب رہنا چاہتے تھے۔ لہٰذا عبدالحفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنانے کی فرمائش تسلیم کرنی پڑی اور ساتھ ہی انہیں سینیٹربنانے کی خواہش بھی پوری کر دی گئی تھی۔ اسی طرح موجودہ حکمرانوں نے بھی واشنگٹن کی یہ دونوں فرمائشیں پوری کرنے کی حامی بھری تھی۔ اس میں سے عبدالحفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنانے کی پہلی خواہش پوری کردی گئی۔ تاہم انہیں سینیٹر بنانے کا مطالبہ بھی تمام تر کوششوں کے باوجود وزیراعظم پورا نہ کرسکے۔
ادھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ ان کے حساب سے یوسف رضا گیلانی کو بیس ووٹوں کی برتری سے جیتنا چاہئے تھا۔ لیکن وہ پانچ ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے۔ اسلام آباد میں میں موجود ذرائع نے آصف زرداری کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جن پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے ایم این ایز سے پیپلز پارٹی کی بات ہوئی تھی، ان کی تعداد بیس سے بائیس تھی۔ تاہم یوسف رضا گیلانی ان تمام کے ووٹ اس لیے حاصل نہیں کر سکے کہ الیکشن سے ایک روز پہلے منگل کی رات کو وفاقی دارالحکومت میں بڑی منڈی لگی ہوئی تھی۔ جہاں حکومت کی سپورٹ میں ایک ریئل اسٹیٹ ٹائیکون نے اپنی تجوری کا منہ کھول رکھا تھا۔ ذرائع کے بقول اس صورتحال میں رات کے پچھلے پہر ایک موقع ایسا بھی آیا جب پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائوں کو یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ ان کے آٹھ سے دس ووٹ کم ہوجائیں گے۔ یہ ووٹ کم تو ضرور ہوئے۔ لیکن پھر بھی گیلانی پانچ ووٹوں سے کامیاب ہوگئے۔ ذرائع کے بقول اب اگلے مرحلے میں یوسف رضا گیلانی کے چیئرمین سینیٹ بننے کے بھی امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
غیر سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ عبدالحفیظ کی شکست اور یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا اثر حکومت پر لازمی پڑے گا۔ یہ سوچ اپنی جگہ موجود ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے باقی ڈھائی برس پورے کرانے ہیں۔ لیکن Circumstances (حالات) ایک بڑا فیکٹر ہوتے ہیں۔ سینیٹ الیکشن میں وفاقی دارالحکومت سے وزیراعظم کے نمائندے کی ناکامی نے بظاہر یہ حالات پیدا کردیے ہیں۔ وزیراعظم کو سپورٹ کرنے والوں کی سوچ میں یہ تبدیلی آئے گی کہ عوامی طور پر تو وزیراعظم کی مقبولیت بتدریج کم ہو رہی ہے۔ اب ان کے اپنے ارکان پارلیمنٹ بھی موجودہ حکومت سے بیزار ہوگئے ہیں۔ محض دبائو کے تحت کب تک انہیں حکومت کا حامی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اس سیناریو میں اپوزیشن اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو اس کا کامیاب ہونا خارج از امکان نہیں۔