امت رپورٹ:
وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کے ووٹ کا معرکہ خود لڑنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اہم حلقوں سے وزیراعظم ماضی جیسی مدد کی یقین دہانی حاصل نہیں کر سکے ہیں اور انہیں کہا گیا ہے کہ اپنا سیاسی گیم خود کھیلیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے پہلے اہم لوگوں سے ملاقات کی تصاویر جاری کرانے کا مقصد اپنے پارٹی ارکان اور اتحادیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ پانسہ ابھی یکسر نہیں پلٹا ہے۔ لہٰذا سینیٹ الیکشن میں حکومتی نمائندے کے خلاف ووٹ دینے والے پارٹی ارکان سمیت دیگر اتحادی بھی اگر اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں تو انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کر لینی چاہیے۔
ذرائع کے مطابق حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ خود کیا اور قریباً نصف کے قریب وزرا نے اس فیصلے کی تائید کی تھی۔ ان وزرا کا مؤقف تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کا حملہ روکنے کے لئے PRE-EMPTIVE اقدام کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر اپوزیشن کو وقت دیا گیا تو وہ پارٹی کے باغی ارکان کو حکومت کے خلاف کھلے عام سامنے آنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اس سے قبل وزیراعظم اگر خود ہی اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر دیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف انہیں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا موقع مل جائے گا اور دوسرا یہ کہ اپوزیشن کو تیاری کا ٹائم نہیں مل سکے گا۔ جبکہ خفیہ ووٹنگ میں جن سولہ ارکان نے حکومتی نمائندے کے خلاف ووٹ ڈالے۔ وہ اوپن ووٹنگ میں یہ قدم اٹھانے کا رسک فی الحال نہیں لیں گے۔ کیونکہ اوپن ووٹنگ میں ایک تو وہ اپنی شناخت نہیں چھپا سکیں گے اور پھر یہ کہ انہیں نا اہلی بھی بھگتنی پڑے گی۔
واضح رہے کہ آئین، سینیٹ الیکشن میں کسی رکن کو پارٹی کی مخالفت میں ووٹ دینے سے نہیں روکتا۔ تاہم وزیراعظم اور اسپیکر کے انتخاب کے لئے پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر رکن کو نا اہل کرایا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے بقول ان تمام معاملات کو زیر غور لانے کے بعد ہی وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم جو وزرا اور مشیر وزیراعظم کے اس فیصلے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا موقف تھا کہ بہر طور یہ ایک رسکی فیصلہ ہے۔ عبدالحفیظ شیخ کی شکست کے باوجود آئینی طور پر جب وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے کا پابند نہیں تو یہ رسک لینے کی ضرورت نہیں۔ پی ٹی آئی ذرائع نے تصدیق کی کہ خود وزیراعظم کو بھی سو فیصد یقین نہیں ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے۔ خاص طور پر غیبی مددگاروں کی طرف سے سیاسی جنگ، سیاسی طریقے سے لڑنے کی تجویز کے بعد سیٹ بیک کا خطرہ بظاہر بڑھ گیا ہے۔
لیکن خود اپوزیشن کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے میں دشواری نہیں ہو گی کہ باغی ارکان کے ساتھ اگلے مرحلے سے متعلق اس کے معاملات ابھی طے نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا اپوزیشن اتحاد نے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے خود ہی اعتماد کا ووٹ لینے کے اعلان کے بعد اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے اور اب اس کی توجہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے پر مرکوز ہو گئی ہے۔ جس کا عندیہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی دیا ہے۔
لاہور میں نون لیگ کے ایک سینئر رہنما کے مطابق یہ طے تھا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے پہلے سینیٹ الیکشن میں حکومت کے خلاف ووٹ دینے والے سولہ ارکان سمیت دیگر حکومتی اور اتحادی ممبران پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر ان کے مطالبات کو پورا کرنے کی ٹھوس یقین دہانی کرائی جائے گی۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے باغی ارکان نے اگلے عام انتخابات میں اگرچہ نون لیگی ٹکٹ دیئے جانے کے زبانی وعدے پر سینیٹ الیکشن میں عبدالحفیظ شیخ کے خلاف ووٹ ڈال دیا۔ تاہم تحریک عدم اعتماد میں چونکہ شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹنگ ہوتی ہے۔ لہٰذا کھلے عام سامنے آنے سے پہلے ان باغی ارکان نے نون لیگی ٹکٹ کی تحریری یقین دہانی اور کسی گارنٹر کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کیا جانا تھا۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اتفاق کر لیتیں تو پھر باغی ارکان کی تحریری یقین دہانی سے متعلق خواہش پوری کرنے پر عمل کیا جاتا۔ اس سارے عمل میں ڈیڑھ سے دو ہفتے درکار تھے۔ تاہم اس سے قبل وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر کے اپوزیشن کا پلان متاثر کر دیا۔
نون لیگی رہنما کے مطابق ہفتے کو وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ لینا ہے۔ اب درمیان میں ایک دن باقی ہے۔ اتنے کم وقت میں باغی ارکان کے ساتھ ڈیل ممکن نہیں۔ لہٰذا اپوزیشن نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے اب پہلے پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اس معاملے کو زیر بحث لایا جائے گا۔ لیگی رہنما کے بقول فی الحال قومی اسمبلی کے معرکہ پر توانائیاں ضائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے۔ کیونکہ باغی ارکان کسی ٹھوس یقین دہانی کے بغیر اپنی رکنیت سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار نہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آئینی طور پر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد چھ ماہ بعد لائی جا سکتی ہے۔ اس سیناریو میں پی ڈی ایم قیادت نے اپنی ابتدائی مشاورت میں یہ بہتر سمجھا ہے کہ مرکز کو چھوڑ کر پہلے پنجاب میں قسمت آزمائی کر لی جائے۔ اس پر اتفاق رائے اور طریقہ کار طے کرنے کے لئے اپوزیشن قیادت سربراہی اجلاس میں سر جوڑ کر بیٹھے گی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک لیگی عہدیدار کے بقول پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی کے لئے قاف لیگ کو توڑا جانا ضروری ہے۔ اس کے لئے پیپلز پارٹی سے زور لگانے کا کہا جائے گا۔ کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی سے اس وقت آصف زرداری سب سے زیادہ رابطے میں ہیں۔
گوجرانوالہ سے نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی چوہدری ذوالفقار علی بھنڈر کا دعویٰ تو یہ ہے کہ پنجاب بھر میں پی ٹی آئی کے پچاس سے ساٹھ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ان کی پارٹی قیادت سے رابطے میں ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے چوہدری ذوالفقار بھنڈر کا کہنا تھا ’’یہ رابطے نئے نہیں، پچھلے ایک برس سے چل رہے ہیں۔ ان میں سے متعدد میرے کولیگ اور دوست ہیں۔ شروع سے ان کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ اگر نون لیگی قیادت انہیں اگلے عام انتخابات میں ٹکٹ دینے کی ٹھوس یقین دہانی کرا دے تو وہ کھل کر سامنے آنے کے لئے تیار ہیں۔ کیونکہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں نے ان کے سیاسی مستقبل دائو پر لگا دیے ہیں۔ اور اپنے حلقوں میں یہ عوام سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں‘‘۔ ذوالفقار بھنڈر کے بقول اگر وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو چھ ماہ بعد ان کے خلاف اپوزیشن دوبارہ تحریک عدم اعتماد لائے گی اور اس وقت تک پی ٹی آئی کے ان باغی ارکان سے معاملات بھی طے پا چکے ہوں گے۔ فی الحال پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے ان ہائوس تبدیلی کا فیصلہ درست ہے۔ اگر پنجاب ہاتھ آ گیا تو مرکز خود بخود کمزور ہو جائے گا۔ لیکن یہ فیصلہ پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں نے مل کر کرنا ہے۔