احمد نجیب زادے:
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کیلیے بر سر پیکار طالبا ن مجاہدین نے افغان کٹھ پتلی اور امریکی و اتحادی افواج کیخلاف جنگی کارروائیوں کیلئے کمرشل ڈرونز کا کامیاب استعما ل شروع کردیا ہے، جس سے افغا ن فورسز اور اتحادی افواج میں کھلبلی مچ چکی ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق اب طالبان کو افغان افواج پر فضائی حملوں کیلیے بھی نفسیاتی برتری حاصل ہوچکی ہے۔
برطانوی تھنک ٹینک ’’بیلنگ کیٹ‘‘ کے سینئر تجزیہ نگار نک واٹر کا کہنا ہے کہ طالبان کے مسلح ڈرونز کی فائر پاور کم اور پے لوڈ ایک یا دو بم ہیں، لیکن یہ درست ہدف پر گرائے جائیں تو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نک واٹر کے مطابق طالبان ان ڈرونز کو ٹارگٹڈ اہداف کیخلاف استعمال کررہے ہیں۔ جنوری 2020ء میں طالبان کی جانب سے ہلمند میں DJI Matrice نامی جدید ترین ڈرون کی ویڈیو جاری کی گئی، جس میں ہائی ریزولوشن کیمرہ اور بم ڈراپ ٹیکنالوجی موجود تھی۔ اس سے یقین کیا جاسکتا ہے کہ طالبان فضائی برتری اور حملوں کی ٹیکنالوجی میں کس تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
طالبان جنگجوئوں نے گزشتہ چھے ما ہ کے عرصہ میں اپنی دشمن افواج کی کئی اسٹریٹیجک عمارات، چوکیوں اور فوجی اڈوں سمیت گورنر ہائوس قندوز کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ طالبان، دشمنوں کی پوسٹوں پر زمینی یلغارکا آغاز، ڈرون بمباری سے کرتے ہیں۔ سیدکرم چوکی، پکتیکاکے عسکری کمانڈر انچارج ایمل کا کہنا ہے کہ طالبان ڈرونز حملوں کیلئے رات نو سے دس بجے کا وقت استعمال کرتے ہیں جب مکمل اندھیرا چھایا ہوتا ہے۔
عالمی جریدے ’’ڈپلومیٹ‘‘ نے لکھا ہے کہ افغان فورسز میں ان ڈرونز کے استعمال سے پریشانی لاحق ہوچکی ہے۔ افغان انٹیلی جنس ’’این ڈی ایس‘‘ کے افسران کا کہنا ہے کہ ان حملوں اور اسٹریٹیجی سے ہمارے تحفظات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اگرچہ ان ڈرون حملوں میں زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہدف کو صحیح نشانہ بنانے کا تجربہ حاصل کرنے والے طالبان جنگجو، دشمن فورسز کا بہت زیادہ نقصان کرنے کے لائق ہوجائیں گے۔ مستقبل قریب میں امریکی و افغان افوا ج کیخلاف فضائی بمباری کیلیے بڑے ڈرونز کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ طالبان جنگجو سفارتی و جنگی دونوں محاذوں پر مخالفین پر نفسیاتی برتری حاصل کرچکے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ایک جانب مذاکرات ہو رہے ہیں اور دوسری جانب طالبان نے اپنے زمینی وفضائی حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے، افغان سیکورٹی فورسز کا مورال ڈائون ہورہا ہے۔
امریکی سیکورٹی تجزیہ نگار جوناتھن شورڈن کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے عسکری ڈرونز کا استعمال امریکی و افغان افواج پر نفسیاتی برتری کا خاصہ لئے ہوئے ہے۔ اس سلسلہ میں طالبان متعدد ویڈیوز اپلوڈ کرچکے ہیں جو ان کی دشمنوں پر نفسیاتی برتری کیلیے ہے۔ افغان انٹیلی جنس نے طالبان کے مسلح ڈرونز کوسنگین مسئلہ قرار دیا ہے اور امریکی و اتحادی افواج پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں چھوٹے کمرشل ڈرونز کی درآمد پر مکمل پابندی لگوائیں۔
وزارت دفاع افغانستان کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ ترمیم شدہ ڈرون حملوں میں نقصان یا ہلاکتوں کی زیادتی یا کمی کا نہیں ہے، بلکہ افغان سکیورٹی فورسز پر نفسیاتی اثر کا ہے۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ جب طالبان جنگجو کسی ہدف پر حملہ کرتے ہیں تو پہلے دو، چار مسلح ڈرونز اس ہدف پر بھیجتے ہیں۔ اس سے چوکی پر تعینات افغان اہلکار اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے ڈرونز کے استعمال سے افغان سیکیورٹی فورسز کو اب فضائی حملے کا بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے جو ان کے حوصلوں کو مزید پست کرنے کیلیے کافی ہے۔
’’عرب نیوز‘‘ نے لکھا ہے کہ طالبان نے افغان فورسز کے ساتھ لڑنے کیلئے نیا طریقہ مسلح ڈرونز کی شکل میں تلاش کرلیا ہے۔ افغان انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر احمد ضیا کا کہنا ہے کہ طالبان فضائی بمباری کیلئے جو ڈرونز استعمال کر رہے ہیں، وہ مارکیٹ میں موجود ہیں۔ یہ دراصل کیمرہ ڈرون ہیں جن پر بم لگائے جا رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اکتوبر 2020ء میں طالبان جنگجوئوں نے قندوز میں گورنر ہاؤس پر بھی ڈرونز سے بم حملہ کیا تھا۔ اگرچہ این ڈی ایس نے شرمندگی کی وجہ سے اس رپورٹ کی تصدیق تو نہیں کی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے قندوز اور پکتیا سمیت کئی صوبے میں مسلح ڈرونز استعمال کیے۔ ڈرونز حملوں کا یہ سلسلہ بغلان، فاریاب، بلخ، غزنی اور لوگر سمیت قندھار تک دراز ہوچکا ہے۔ افغان عسکری حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ طالبان، افغان فورسز کے خلاف کمرشل ڈرون استعمال کر رہے ہیں جن کو تبدیل کر کے اس کے ساتھ مارٹر یا چھوٹے بم لگا دیے جاتے ہیں اور وہ ڈرون سیکیورٹی فورسزکی چوکیوں، فوجی تنصیبات یا سرکاری عمارات پر گرا دیا جاتا ہے۔