امت رپورٹ
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار قسمت کے ایسے دھنی ہیں کہ پچھلے ڈیڑھ دو برس میں ہر دوسرے تیسرے مہینے ان کی تبدیلی کی خبریں چلتی ہیں لیکن وہ اپنی جگہ برقرار ہیں۔ گزشتہ چند روز سے ایک بار پھر یہ نیوز گردش میں ہے کہ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ بات ایک سے زائد معروف صحافیوں کی جانب سے کی گئی ہے۔
ایک حکومتی ترجمان نے اس کی پرزور تردید کی ہے۔ تاہم ’’امت‘‘ کے سیاسی اور غیر سیاسی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس بار وزیراعلیٰ پنجاب کو تبدیل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اپریل میں عثمان بزدار کی جگہ نیا وزیر اعلیٰ آنے کے قوی امکانات ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس بار وزیر اعظم کے پاس دو چوائس ہیں۔ ایک یہ کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف لائی جانے والی ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں مجبوراً صوبے کو ہاتھ سے نکلتا دیکھیں، یا پھر خود ہی بزدار کی جگہ کوئی قابل وزیر اعلیٰ لے آئیں۔ آخرالذکر آپشن اختیار کرکے وزیر اعظم ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی پسند کا وزیر اعلیٰ لاسکتے ہیں۔ تاہم اگر وہ بزدار کو برقرار رکھنے کی ضد پر قائم رہے تو پھر پنجاب میں اِن ہائوس تبدیلی سے متعلق پی ڈی ایم کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ یہ واضح پیغام وزیر اعظم کو دیا جاچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق ہر مشکل وقت میں حکومت کو سہارا دینے والے پچھلے ڈیڑھ سے دو برس کے دوران کم از کم تین بار وزیر اعظم کو یہ مشورہ یا تجویز دے چکے ہیں کہ پورے ملک کی گورننس بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پنجاب کو چلانے کے لئے کوئی قابل وزیر اعلیٰ لایا جائے ۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پٹری پر چڑھ گیا تو پورا ملک بہتری کی طرف چل پڑے گا۔ تاہم ہر بار وزیر اعظم نے اس تجویز کو مسترد کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیر اعظم کو پھر باور کرایا گیا ہے کہ اقتدار کے باقی ڈھائی برس پورے کرنے کے لئے لازمی ہوگیا ہے کہ گورننس بہتر بنائی جائے۔ جس کے تحت اکانومی اپنے پائوں پر کھڑی ہو۔ مہنگائی کم کی جائے اور خطرناک حد تک پہنچ جانے والے سرکلر ڈیٹ پر قابو پایا جائے۔ اس صورت میں ہی اپوزیشن اتحاد کی تحریک کو غیر موثر بنانے کے ساتھ عوام کی حمایت ملنا ممکن ہے۔ اور دوسرا کوئی راستہ نہیں تاہم اس سلسلے میں کامیاب پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے پنجاب کے معاملات کو بہتر بنایا جائے۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ صوبے کی کمان کسی قابل وزیر اعلیٰ کو سونپ دی جائے۔
ذرائع کے بقول خلاف توقع وزیر اعظم نے اس بار اس تجویز سے کسی حد تک اتفاق کرلیا ہے۔ لیکن ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ کیونکہ فی الوقت ان کی ساری توجہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن پر ہے۔ یوں بزدار کی قسمت کا فیصلہ سینیٹ الیکشن کے بعد متوقع ہے۔ تاہم اس سلسلے میں متبادل وزیر اعلیٰ پنجاب کے نام ابھی سے میڈیا میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان میں رانا بشارت اور میاں اسلم اقبال سرفہرست ہیں۔ تاہم قاف لیگ کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو ان دونوں ناموں سے اتفاق نہیں۔ رانا بشارت نے اگرچہ اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا تھا۔ بعد ازاں وہ نون لیگ کا حصہ رہے۔ پھر قاف لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے رہے۔ دوہزار اٹھارہ کا الیکشن انہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔ تاہم وہ اب بھی قاف لیگ کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت رانا بشارت صوبائی وزیر قانون ہیں۔ جبکہ میاں اسلم اقبال پی ٹی آئی کے سرگرم رہنما ہیں۔ اور اس وقت صوبائی وزیر برائے اطلاعات و ثقافت ہیں۔
ذرائع کے بقول چوہدری پرویز الٰہی سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب میں سیاسی تبدیلی لائی جاتی ہے تو وزارت اعلیٰ کے منصب کے سب سے زیادہ حق دار وہ ہیں۔ تاہم وزیر اعظم کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ اپنے مضبوط سیاسی قلعے پنجاب کا کنٹرول کسی دوسری پارٹی کے حوالے کردیں۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ بزدار کو ہٹایا جاتا ہے تو وزیراعظم کے لئے نئے وزیراعلیٰ کا چنائو آسان نہیں ہوگا۔
ذرائع کے مطابق پہلا مرحلہ بزدار کو ہٹانے سے متعلق ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس بار اپنے مددگاروں کی تجویز پر عمل درآمد میں واقعی سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ اگر ماضی کی طرح وہ بزدار کو نہ ہٹانے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہیں تو پھر پی ڈی ایم کی جانب سے پنجاب میں ممکنہ اِن ہائوس تبدیلی کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ کیونکہ مددگاروں نے طے کیا ہے کہ وزیر اعظم کی ضد برقرار رہنے پر اِن ہائوس تبدیلی کے سیاسی عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے اپوزیشن کتنی سنجیدہ ہے؟
لاہور اور لندن میں موجود نون لیگی ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کے مابین پنجاب میں اِن ہائوس تبدیلی کے لئے مشاورت کا سلسلہ پچھلے دو تین ماہ سے جاری ہے۔ اس بارے میں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی براہ راست نواز شریف سے بات چیت بھی ہوئی ہے۔ لیکن فی الحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نواز شریف کسی صورت چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب قبول کرنے پر تیار نہیں۔
لیگی ذرائع کے بقول آصف زرداری سے نواز شریف کی اس سلسلے میں جو بات ہوئی، اس میں سابق صدر نے بتایا کہ قاف لیگ کی مدد کے بغیر وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں بنائی جاسکتی۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے جو ارکان صوبائی اسمبلی رابطے میں ہیں، ان میں سے بھی بیشتر چوہدری برادران کے زیر اثر ہیں۔ پھر یہ کہ پی ٹی آئی کے یہ ارکان اسمبلی، پارٹی پالیسی سے ہٹ کر اگر بزدار کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو نا اہل ہوجائیں گے۔ لہٰذا اِن ہائوس تبدیلی کا واحد آئینی راستہ یہی ہے کہ قاف لیگ کو تحریک انصاف سے الگ کرکے اپنے ساتھ ملالیا جائے۔
نون لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ زرداری نے نواز شریف کو یقین دلایا ہے کہ فوری طور پر نہیں لیکن کچھ عرصہ بعد قاف لیگ اپنے راستے حکومت سے الگ کرسکتی ہے۔ ان کے بقول چوہدری برادران کی طرف سے یہ عندیہ دیا بھی گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چوہدری برادران سے ملاقات کے لیے بلاول بھٹو زرداری ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ اگرچہ اس ملاقات کا مقصد چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں تعاون حاصل کرنا تھا۔ لیکن اس موقع پر پنجاب میں سیاسی تبدیلی کے ممکنہ سیناریو پر بھی بات چیت ہوئی۔ اگرچہ چوہدری برادران نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں گیلانی کی حمایت سے انکار کیا۔ لیکن یہ عندیہ دے دیا ہے کہ آنے والے چند ماہ میں ہوائوں کا رخ تبدیل ہوسکتا ہے۔ ایسے میں قاف لیگ اس پوزیشن میں ہوگی کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر پنجاب میں اِن ہائوس تبدیلی لے آئے۔ لیکن اس تعاون کے عوض چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ چاہتے ہیں۔
لیگی ذرائع کے مطابق اس پر نواز شریف آمادہ نہیں۔ کیونکہ شہباز شریف کے بعد اگر پنجاب کو کسی نے کامیاب طریقے سے چلایا تو وہ پرویز الٰہی تھے۔ اگر اپوزیشن پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر تیار ہوجاتی ہے تو اس کے نتیجے میں سب سے بڑا سیاسی نقصان نون لیگ کو ہوگا۔ جو یہ سمجھتی ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ صوبے میں کلین سوئپ کرنے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ نون لیگ کو خدشہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بننے کی صورت میں قاف لیگ کو اتنا مضبوط بناسکتے ہیں کہ سیاسی طور پر نون لیگ کو بڑا ڈینٹ ڈال دیں۔ پھر یہ کہ بطور وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بلدیاتی الیکشن میں گراس روٹ لیول تک قاف لیگ کی جڑیں مضبوط کرسکتے ہیں۔
لیگی ذرائع کے مطابق اس منظر نامے میں پی ڈی ایم کی بڑی پارٹیوں کے مابین وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پراتفاق بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ آصف زرداری اس حوالے سے حد درجہ کوشش کر رہے ہیں۔ اوران کی خواہش ہے کہ چوہدری برادران کی شرط تسلیم کرکے حکومت کے خلاف پنجاب سے تبدیلی کا آغاز کردیا جائے۔ لیکن نواز شریف اس تجویز کو مسلسل رد کر رہے ہیں۔