ضیاء چترالی:
کل 15 مارچ کو شام (سریا) میں جاری جنگ کے 10 برس مکمل ہوگئے۔ اس دوران شامیوں پرکیا بیتی؟ بس اس ایک اسٹوری سے اندازہ لگا لیں۔
الجزیرہ نے شامی خانہ جنگی کی ایک دہائی مکمل ہونے پر’’ابوالشہدائ‘‘ (شہیدوں کے والد) کی المناک داستان شائع کی ہے۔ ’’عبد الرزاق محمد خاتون‘‘ نامی اس باہمت شخص کی عمر 83 برس ہے۔ خدا نے نعمتِ اولاد سے خوب نوازا تھا۔ انہوں نے 3 شادیاں کی تھیں۔ جن سے ان کے 27 بیٹے ہوئے۔ بیٹے بھی شادی شدہ اور صاحبِ اولاد تھے۔ اپنے والد کے بڑھاپے کا سہارا۔ بابا جی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عمرکے آخری حصے میں ان پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹے گا، ان کے ناتواں کندھوں پر باقابل برداشت بوجھ آ پڑے گا اور انہیں محنت مزدوری کرکے اپنے پوتوں اور پوتیوں کو کھلانا پڑے گا۔
عبد الرزاق محمد خاتون کا تعلق شام کے بد قسمت شہرادلب کے مضافاتی علاقے سے ہے۔ دس برس قبل شام میں عوامی تحریک شروع ہوگئی، جسے کمال ہوشیاری سے بشار الاسد نے فرقہ وارانہ جنگ میں بدل دیا۔ پھر ایران اور بعد ازاں روس بھی میدان میں کود پڑے اور شامیوں پر آتش و آہن کی بارش برساتے رہے۔ اس دوران ایک ایک کرکے عبد الرزاق کے 13 بیٹے شہید کر دیئے گئے۔ باقی بیٹے کسی نہ کسی طرح جان بچا کر ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
ان کا گھر ادلب اور حماۃ کے درمیان واقع تھا۔ جس میں وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے تھے۔ مگر اب وہ اپنے 30 یتیم پوتے پوتیوں اور بیوہ بہوئوں کے ساتھ خیمے میں زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہے ہیں۔ بوڑھا دادا ہی ان یتیم بچوں کا واحد سہارا ہے۔ اس جنگ میں عبد الرزاق کی اہلیہ بھی شہید ہوگئی۔ گھر تو کب کا کھنڈر بن چکا ہے۔ اب انہوں نے زیتون کے درختوں کے پاس ایک جگہ کرائے پر لی ہے۔ جس میں 7 خیمے نصب کرکے اپنے یتیموں کو لے کر مقیم ہیں۔ بابا جی یتیموں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی بھرپور توجہ دیتے ہیں۔
عبد الرزاق نے یتیموں کی ایسی تربیت کی ہے کہ وہ قوت لایموت پر قناعت کئے ہوئے ہیں۔ عام بچوں کے برعکس کھانے کی تھوڑی بھی چیز ہو تواسے مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔ اس لئے وہ جانتے ہیں کہ ان کا دادا اتنا ہی لا سکتے ہیں۔
اس جنگ میں بابا جی نے قیامت کے مناظر دیکھے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے 7 بیٹے شہید ہوئے۔ پھر ان کے گھر پر بمباری ہوئی۔ جس میں ان کے چھ بیٹوں سمیت اہلیہ بھی شہید ہو گئیں۔ یہ 23 جنوری 2020ء کا بدقسمت دن تھا۔ جب روسی طیاروں نے ادلب کو نشانہ بنایا تھا۔
بابا جی کا کہنا ہے کہ مجھ پر مصائب کے جو پہاڑ ٹوٹے، اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ میری کمر ٹوٹ گئی ہے۔ مگر میرے رب نے مجھے سہارا دیا اور مجھے یتیموں کی رکھوالی کے لئے نئی جوانی عطا کی۔ بابا جی کے موبائل میں ان کے شہید بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔ ان میں وہ ویڈیو بھی ہے، جس میں ان کے گھر پر بمباری ہو رہی ہے۔ وہ تنہائی میں یہ مناظر دیکھ کر اشک بہاتے رہتے ہیں۔
عبد الرزاق محمد خاتون کھیتوں اور باغات میں کام کرکے روزانہ اتنا کما لیتے ہیں کہ یتیموں کے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ اس لئے لوگوں نے ان کا نام ’’ابو الشہدائ‘‘ رکھ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نام سن کر مجھے کچھ تسلی اور حوصلہ ملتا ہے کہ مجھے اب بھی زندہ رہنا ہے، اپنے لیے نہیں، ان یتیموں کے لیے۔ ان کا واحد ظاہری سہارا میں ہی ہوں۔ بیٹے تو رب نے مجھ سے چھین لیے۔ لیکن ان کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔
ان کی بیوہ بہو بتول خطاب کا کہنا ہے کہ ہم سخت ترین حالات سے دوچار ہوئے۔ یتیم بچوں کا ساتھ ہے، لیکن رہنے کو گھر نہیں۔ مگر پھر بھی میرے سسر صبح سے شام تک لوگوں کے باغوں میں کام کرکے دال روٹی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ادلب میں 30 لاکھ بے گھر شامی خیموں میں زندہ رہنے کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ بشار الاسد اور اس کے ہمنواؤں نے شامی مسلمانوں کے ساتھ وہ کچھ کیا ہے، جس کے سامنے اسرائیلی مظالم بھی ہیچ ہیں۔
اس سے ہمیں ایک اور شامی بابا جی یاد آگئے۔طواف سے فارغ ہو کر مطاف میں بیٹھے کعبہ شریف کا دیدار کر رہا تھا کہ ایک بابا جی پاس آکر بیٹھ گئے۔ دکھ درد اور غم و اندوہ ان کے چہرے پر عیاں تھا۔ خدوخال سے فلسطینی معلوم ہو رہے تھے۔ مگر پوچھنے پر پتہ چلا کہ شامی مہاجر ہیں، جو سعودیہ کے مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔ اس وقت شامی خانہ جنگی کو چار برس ہو چکے تھے۔ میں نے حالات کا پوچھا تو بڑے افسردہ ہو کر بتایا کہ طیارے آتے ہیں اور بمباری کرکے چلے جاتے ہیں۔
بابا جی نے ہاتھ کا اشارہ کرکے کہا بم بارش کے قطروں کی طرح برستے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ہم سے قینچی مانگی۔ میرے پاس تھی نہیں۔ پوچھا کہ قینچی سے کیا کرنا ہے؟ فرمایا کہ سر کے بال خود کاٹ کر احرام کھول لوں گا۔ ان کے پاس حجام کو دینے کیلئے پیسے نہیں ہوں گے، لیکن تھے خوددار، اس لیے پیسے کا ذکر نہیں کیا۔ ورنہ ہر کوئی حجام کو دس ریال دے کر بال کٹوا لیتا ہے۔ شامیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کے کسی چشم دید گواہ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ پھر جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو مسجد کے مدرس ہمارے دوست الشیخ مطیع الولی پہلی ہی رات مجھے اپنے ساتھ جبل احد کے پاس ایک شادی میں لے گئے۔ مسجد نبویؐ کے تہہ خانے (پارکنگ) میں، میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔ جب ان کی گاڑی آئی تو ایک عرب شیخ پہلے سے اگلی سیٹ پر براجمان تھے۔ تعارف پر پتہ چلا کہ وہ بھی مسجد نبویؐ کے مدرس ہیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ وہ شام کے شہر الرقۃ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھران سے بھی شام کے احوال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔