شہر قائد میں مافیاز مرغیوں کی باقیات سے گوشت، قیمہ اور چربی نکال کر فروخت کرتے ہیں جو باربی کیوز میں استعمال کی جاتی ہے، سندھ فوڈ اتھارٹی و دیگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، شہری
شہر قائد میں مافیاز مرغیوں کی باقیات سے گوشت، قیمہ اور چربی نکال کر فروخت کرتے ہیں جو باربی کیوز میں استعمال کی جاتی ہے، سندھ فوڈ اتھارٹی و دیگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، شہری

مرغیوں کی سڑی ہوئی آلائشوں سے گوشت کے حصول کا دھندا کھلے عام جاری

رپورٹ: ذوالقرنین زیدی

شہر قائد میں مرغیوں کی سڑی ہوئی آلائشوں سے باربی کیو و گھی تیل و دیگر غذائی اشیا کی تیاری کا مکروہ دھندا کھلے عام جاری ہے۔
پہلے تو ذبحہ شدہ چکن کی آلائشوں کو صرف پولٹری فیڈ ہی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا پھر اس کاروبار نے ترقی کی اور مرغیوں کی یہی آلائشیں مختلف فیکٹریوں میں بوائلر میں ڈال کر ان سے چکنائی حاصل کرنا شروع کردی گئی جو گھی بنانے میں استعمال ہونے لگی۔
صرف یہی ستم ظریفی نہیں بلکہ چکن کی سڑی ہوئی بدبو دار آلائشوں کو بوائلر تک پہنچانے سے پہلے بھی ان آلائشوں میں پروں، دم، سر اور انتڑیوں کے ساتھ موجود گوشت اور چربی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے حاصل کرلیے جاتے ہیں اور پھر اس بدبو دار اور کیڑے زدہ گوشت اور چربی کو مختلف کیمیکلز کی مدد سے دھو کر بدبو دور اور کیڑے ختم کردیے جاتے ہیں، اس کے بعد اس کا قیمہ بناکر مختلف ہوٹلوں اور کھانے پینے کی اشیا تیار کرنے والوں کو سپلائی کردیا جاتا ہے جو قیمہ، سموسے، کباب و دیگر اشیا تیار کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
غریب آبادیوں میں چکن کی انہی آلائشوں میں موجود پروں اور دم سے حاصل کردہ گوشت کو کیمیکل کی مدد سے بدبو ختم کرکے سیخ بوٹی بنانے والوں کو فراہم کردیا جاتا ہے جو تیز مصالحے استعمال کرکے اسے خوش ذائقہ بنادیتے ہیں اور غریب لوگ اسے مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔
مرغیوں کی آلائشوں کا چکن کی دکان سے لے انسانی غذا بننے تک کے عمل کے دوران کوئی بھی متعلقہ محکمہ رکاوٹ نہیں ڈالتا۔
چکن کی دکانوں پر صبح سے لے کر شام تک مرغیاں کاٹی جاتی اور مختلف ڈرموں میں ڈالی جاتی ہیں جہاں آٹھ دس گھنٹے تک یہ اس کی آلائشیں گلتی اور سڑتی رہتی ہیں مگر محکمہ ماحولیات اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا صرف یہی نہیں بلکہ رات کے اوقات میں مختلف گاڑیاں جن میں سے کچھ پر ’’پولٹری فیڈ پروٹین‘‘ لکھا ہوتا یہی آلائشیں اٹھانا شروع کردیتی ہیں، آلائشیں منتقل کرتے وقت شدید بدبو پیدا ہوتی ہے اور دوسری جگہ منتقل کرتے وقت راستے میں بھی یہ تعفن پھیلاتی جاتی ہیں جس سے راہ گزاروں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان آلائشوں سے ٹپکنے والی غلاظت سڑکوں کو آلودہ اور پھسلن زدہ کرتی ہے۔
آلائشیں جن میں کیڑے پڑ چکے ہوتے ہیں شہر میں قائم مختلف کارخانوں کو بیچ دی جاتی ہیں جہاں کاریگر اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات بھر اس سے گوشت تلاش کرتے ہیں اور صبح ہونے پر ان آلائشوں سے حاصل شدہ گوشت کو مختلف کیمیکل سے دھو کر بدبو اور کیڑے ختم کیے جاتے ہیں اور آگے سپلائی کردیا جاتا ہے۔
چکن کی آلائشوں سے گوشت حاصل کرنے کے بعد باقی ماندہ آلائشوں کو دوبارہ گاڑیوں میں بھر کر تیل بنانے والی فیکٹریوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں مرغیوں کے علاوہ دیگر حلال اور مردہ جانوروں کی ہڈیاں، کھالیں اور دیگر باقیات کو بوائلر میں ڈال کر جلا دیا جاتا ہے اور تیل حاصل کرکے باقی راکھ کو سڑکوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔
فیکٹری مالکان کا کہنا ہے کہ یہ تیل صابن بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے حالانکہ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی شواہد موجود نہیں البتہ یہ تیل مبینہ طور پر گھی و تیل بنانے والی فیکٹریوں کو بیچ دیا جاتا ہے یا پھر بچوں کے پاپڑ وغیرہ تیار کرنے کے والے افراد اس چکنائی کو استعمال میں لے آتے ہیں۔
سنجیدہ حلقوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ چکن کی آلائشوں سے غذائی اشیا تیار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے۔ انہوں نے ملک بھر کی فوڈ اتھارٹیز بالخصوص سندھ فوڈ اتھارٹی سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے راشی اہلکاروں کو پابند بنائیں کے معمولی رقم کے لیے وہ انسانی جانوں سے نہ کھیلیں۔