احمد نجیب زادے:
ویڈیو گیم ’’پب جی‘‘نے گزشتہ روز ایک ارب ڈائون لوڈ کا سنگ میل عبور کرتے ہوئے ورلڈ ریکارڈ بنالیا اور اب تک یہ ریکارڈ کوئی ویڈیو گیم نہیں بنا سکا۔ چین کی معروف ٹیکنالوجی کمپنی ٹین سینٹ کے مطابق تین برس کی قلیل مدت میں چین سے باہر ایک ارب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے اوراگر چین کو بھی ساتھ ملایا جائے تو تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ جبکہ ٹین سینٹ کے مزید دو گیم ’’اونر آف کنگز‘‘ اور’’ پب جی موبائل چین‘‘ بھی عالمی سطح پر ٹاپ رینکنگ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
عالمی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کہنا ہے کہ جمعرات کو چینی کمپنی کے اس اعلان نے اسے دنیا کی کمائی کرنے والے ودیڈیو گیمز میں سے نمبر ون بنا دیا ہے۔ تاہم گیمنگ ورلڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق پب جی دنیا کا متنازع ترین گیم کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ واحد گیم ہے۔ جس پر دنیا کے 34 ممالک نے مختلف اوقات میں پابندیاں عائد کردی تھیں۔ بعد میں کچھ ممالک نے پابندیاں اٹھا لیں۔ لیکن نفسیاتی ماہرین اور سماجی ایکسپرٹس کا کہنا ہے اس گیم کی وجہ سے بچوں کے اندر نفسیاتی امراض، قنوطیت، ڈپریشن اور غصہ بیحد بڑھا ہے۔ جس کی وجہ سے والدین کیلیے عالمی افق پر مختلف ممالک میں وارننگز بھی جاری کی جاچکی ہیں کہ بچوں کی صحت کو برقرار رکھنے کیلیے ان کو پب جی کے مسلسل و متواتر استعمال سے روکا جائے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پب جی کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے کئی ممالک میں بچوں اور والدین کی باقاعدہ کونسلنگ بھی کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پب جی وجہ سے دنیا بھر میں 100 سے زیادہ ہلاکتیں، خود کشی اور قتل کے واقعات ہو چکے۔ جبکہ 500 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ڈیٹا اینالیٹکس فرم ’سینسر ٹاور‘ کے مطابق پب جی ڈاؤن لوڈنگ کے نئے اعدادوشمار کے بعد صرف سب وے سرفرز اور کینڈی کرش ساگا سے پیچھے ہیں۔ یہ دونوں گیم کھیلنے میں آسان ہیں اور بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
ایک محتاط تخمینہ کے مطابق ماہانہ دس کروڑ افراد اپنے موبائل پر انفرادی و اجتماعی طور پر پب جی کھیلتے ہیں۔ ٹین سینٹ جو ریونیو کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو گیم کمپنی ہے۔ اس کی اسی طرح کی چین میں ایک اور گیم ہے۔ جس کا نام پیس کیپر ایلیٹ ہے۔ جو انتہائی مقبول ہے۔ ادھر عالمی ماہرین صحت کے مطابق ایکشن، مار دھاڑ پر مبنی آن لائن گیمز بچوں اور نوجوانوں میں بے شمار نفسیاتی و جسمانی اور سماجی رویوں میں تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں۔ ان گیمز کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں اور خود کشی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔
پب جی سے قبل بھی کچھ آن لائن گیمز ایسی ہیں جن کو کھیلتے ہوئے دنیا بھر میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں ’پوکی مون گو‘ اور ’بلیو وہیل‘ سر فہرست ہیں۔ جبکہ آج کل ’فری فائر‘ گیم بھی بہت کھیلا جارہا ہے۔ ادھر بھارت جو دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ رکھتا ہے، میں ماہرین نے بتایا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورے بھارت میں گھروں میں محصور بچے وقت گزاری کیلیے چھوٹے چھوٹے گروپس میں بیٹھ کر پب جی اور اس نوعیت کے دیگر آن لائن گیمز کھیلتے ہیں۔ جس کے بارے میں ماہرین کا انتباہ ہے کہ ایک جگہ پر مسلسل گھنٹوں بیٹھ کر یہ گیمز کھیلنے سے بچوں کے ذہنی وجسمانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں اورسب سے بڑھ کر ان کی آنکھوں کی بینائی متاثر ہورہی ہے۔
دہلی میں موجود سکھویر سنگھ نامی نوجوان کا ماننا ہے کہ پب جی انٹرنیٹ کی وساطت سے چار کھلاڑیوں پر مشتمل ایک گروپ کھیلتا ہے۔ اگر انٹرنیٹ سروس کی رفتار کم ہو تو یہ گیم کھیلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن موبائل انٹرنیٹ کی رفتار قدرے تیز ہوتے ہی سارے دوست پب جی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔
بھارتی ہیلتھ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ رات دیر گئے تک پب جی کھیلنے سے بچے صبح کے وقت دیر سے اٹھتے ہیں اور پڑھائی کی طرف دھیان نہیں دے پا رہے ہیں۔ ایک نفسیاتی ماہر کا کہنا تھا کہ پب جی کھیلنے سے بچوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی چال چلن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے ان کا مستقبل خطرے میں پڑنے کے قوی امکانات ہیں۔
چینی ٹیکنالوجی کمپنی ٹین سینٹ نے کہا ہے کہ اس کا ہدف یہ ہے کہ وہ گیمز سے ہونے والی آمدنی کا کم و بیش50 فیصد بیرونی ممالک سے حاصل کرے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کی وجہ سے گیمز کی بڑی مارکیٹ بھارت نے پب جی سمیت متعدد چینی ایپس پر پابندی عائدکر دی تھی۔