امت تحقیقاتی ٹیم:
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کا کنٹرول 6 ماہ قبل کینیڈا میں مقیم یونس میمن نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ جس کے بعد اس نے آغا مقصود عباس کے ذریعے اپنا سسٹم اتارا۔ واضح رہے کہ آغا ایس بی سی اے کے سابق ڈی جی ہیں اورانتہائی کرپٹ ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس ریٹائرافسرکو ایس بی سی اے کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دینا سندھ میں ہی ممکن ہے۔ جہاں کرپشن ماں کے دودھ جیسی حلال اور پاکیزہ خوراک سمجھی جاتی ہے۔ آغا مقصود عباس نے ایس بی سی اے کے بعض کرپٹ افسران اور بڑے پیمانے پر رہائشی پلاٹوں پرغیر قانونی تعمیرات شروع کرا دیں، جو بدستور جاری ہیں۔
یونس میمن زرداری کا خاص آدمی ہے اور سابق ڈی جی، ایس بی سی اے منظور قادر کاکا نے آغا مقصود عباس کو غیر قانونی تعمیرات کرانے والے سسٹم کا انچارج بنانے کی سفارش کی۔ جس کے بعد موجودہ ڈی جی ایس بی سی اے سے لے کر ایس بی سی اے کے تمام افسران ہی غیر قانونی تعمیرات کرانے والے سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں۔ یونس میمن نے جن ایس بی سی اے افسران کو غیر قانونی تعمیرات سے پیسہ وصولی کے لئے چنا۔ ان میں سے بعض افسران کرپشن کے الزامات پر ڈیڑھ سال سے معطل ہیں۔ اور جو حاضر سروس ہیں، وہ صرف سسٹم کے خوف سے کوئلے کی دلالی کر کے اپنے ہاتھ کالے کر رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے پیر کے روز کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران زمینوں پر قبضے اور غیر قانونی تعمیرات کرانے والی با اثر شخصیت یونس میمن کا نام لے کر ایک بڑی مافیا کو بے نقاب کیا ہے۔ یونس میمن خود کو سندھ کا طاقتور ترین مافیا باس سمجھتا ہے۔ یونس میمن نے سندھ کی ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت سے اپنے قریبی تعلقات کو کیش کراتے ہوئے سندھ میں اپنی ایک مافیا بناکر سرکاری اداروں پر غیر قانونی تسلط شروع کیا۔ تاکہ بھرپور کرپشن کر کے اعلیٰ شخصیات کو ادائیگی کی جا سکے۔
یونس میمن نے سرکاری اداروں پر قبضے کا آغاز کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) سے کیا۔ جہاں اس نے چائنا کٹنگ کنگ عاطف امریکن کے ذریعے سرکاری زمینوں، رفاہی پلاٹوں پر قبضے کر کے غیر قانونی تعمیرات کرائیں۔ اس دوران کے ڈی اے سے سینکڑوں پلاٹوںکی شفٹنگ کر کے اربوں روپے کمائے گئے۔ یونس میمن نے عاطف امریکن کے ذریعے پوش علاقوں میں شفٹنگ کے نام پر زمینوں پر قبضے کئے۔ جن میں گلستان جوہر، گلشن اقبال، بوٹ بیسن، بہادر آباد، سرجانی ٹائون، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد اور دیگر علاقے شامل تھے۔ جب یونس میمن کے ڈی اے کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کے بعد اس نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اپنے کنٹرول میں لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ایس بی سی اے کو کنٹرول میں لینے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ سابق ڈی جی ایس بی سی اے منظور قادر کاکا تھا۔ منظور قادرکاکا بھی زرداری کا قریبی دوست تھا۔ جس پر یونس میمن نے پہلے کینیڈا میں مقیم منظور قادر کاکا سے رابطہ کیا اور ایس بی سی اے کو پٹہ پر لینے کی خواہش ظاہر کی۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ منظور قادر کاکا اور یونس میمن کی کینیڈا میں دو سے تین ملاقاتیں ہوئیں اور منظور قادر کاکا نے اپنا حصہ طے کر کے یونس میمن کو ایس بی سی اے میں غیر قانونی تعمیرات کرانے کا انچارج بنا دیا اور ساتھ میں یہ شرط رکھی کہ کراچی میں سسٹم چلانے کا انچارج کاکا کے منظور نظر سابق ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے آغا مقصود عباس کو بنایا جائے گا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ منظور قادر کی اس شرط کو مان لیا گیا اور کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے سسٹم کا انچارج ریٹائرڈ کرپٹ افسر آغا مقصود عباس کو بنا دیا گیا۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے کا سسٹم یونس میمن کو دیتے ہوئے یہ طے ہوا تھا کہ منظور قادر کاکا کو غیر قانونی تعمیرات سے ملنے والی رقم کا پندرہ فیصد حصہ دیا جائے گا۔ جبکہ پچاس فیصد سندھ کی اہم سرکاری شخصیت کا ہو گا اور 35 فیصد حصہ یونس میمن کا ہو گا۔ جس سے وہ 12 فیصد حصہ آغا مقصود عباس کو دیں گے۔ جو اپنا حصہ بھی اسی سے نکالیں گے اور سسٹم کا حصہ بننے والے دیگر اداروں کے افسروں کو بھی اپنے حصے میں سے ادا کریں گے۔ جس پر آغا مقصود عباس نے سسٹم کا حصہ بننے والوں کا حصہ پانچ فیصد طے کیا اور سات فیصد حصہ اپنا رکھا۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ سارے معاملات طے ہونے کے بعد آغا مقصود عباس کو یونس میمن نے غیر قانونی تعمیرات کرانے والے افسران کی ٹیم تیار کرنے کا ٹاسک دیا۔ آغا مقصود عباس نے غیر قانونی تعمیرات کرانے کے لئے ایس بی سی اے کے بعض کرپٹ افسران کا تعین کیا اور اس حوالے سے انہوں نے سب سے پہلا نام عبدالعاصم خان کا نکالا۔ جو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا سینئر بلڈنگ انسپکٹر تھا۔ ان دنوں وہ نہ صرف غیر قانونی تعمیرات کرانے کے الزام میں معطل ہے۔ بلکہ اس نے اپنی بحالی کے لئے دیگر معطل افسران کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن نمبر 2782/2021 داخل کر رکھی ہے۔ جس میں سندھ حکومت اورایس بی سی اے کے اعلیٰ افسران کو پارٹی بنایا ہوا ہے۔ عبدالعاصم خان ایس بی سی اے میں گریڈ 16 کا سینئر بلڈنگ انسپکٹر ہے۔ جب آغا مقصود عباس ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے تھا تو وہ جمشید ٹائون میں غیر قانونی تعمیرات کا سسٹم چلاتا تھا۔ آغا مقصود عباس کے دور میں اس نے غیر قانونی تعمیرات کا سسٹم کامران ٹیسوری کو دیا تھا۔ کامران ٹیسوری کی طرف سے یہ سارا سسٹم فاروق دیکھ رہا تھا اور عاصم خان، فاروق کا سب سے وفادار سمجھا جاتا تھا۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے عاصم خان نے سابق ڈی جی آغا مقصود عباس کے دور میں ہی خود کو مضبوط کیا اوروہ ایس بی سی اے کے بجائے سسٹم کا ملازم بن گیا۔ عاصم خان کا ایک بھائی ڈیپوٹیشن پر سسٹم کی مہربانی سے ایس بی سی اے میں نوکری کر رہا ہے، تو دو قریبی کزن بھی ایس بی سی اے میں ملازم ہیں۔ یہ دونوں انتہائی با اثر تصور کیے جاتے ہیں۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ عاصم خان کے ایس بی میں تمام رشتہ داروں پر غیر قانونی تعمیرات کرانے کا الزام ہے اور وہ ان دنوں معطل بھی ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس نے عاصم خان کو اپنے ساتھ ملا کرغیر قانونی تعمیرات کرانے اور یونس میمن کے لئے بھتہ جمع کرنے والی ایک ٹیم بنائی۔ اس ٹیم میں ایسے چھوٹے گریڈ کے پیدا گیر افسران کو شامل کیا گیا جو ماضی میں ٹائون ڈائریکٹرز کے لئے بیٹر کا کام کرتے تھے۔ آغا مقصود عباس نے یونس میمن کے ذریعے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آواز اٹھانے والی این جی اوز کو بھی اپنے کنٹرول میں لیا اور اس کے بعد یونس میمن کے سسٹم کے لیے جو ٹیم بنائی گئی۔ اس میں کراچی کے ضلعی ڈائریکٹرز منیر بھنبھرو، محمد رقیب کے علاوہ کاشف سومرو، عمیر ڈائیو، ضیاء کالا، شہزاد کھوکھر، میڈم جمیلہ جبیں، عمیرکریم، امیرالحسن، شکیل احمد، نواب منگریجو، فرحان ایوب، کمال احمد، ریاض احمد جھاکرو، یاور عباس، عاصم صدیقی، منصور عالم، عمران رضوی اور دیگر شامل ہیں۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ یونس میمن کی غیر قانونی تعمیرات کا سسٹم چلانے والے آغا مقصود عباس نے تمام کرپٹ افسران کو سسٹم کا حصہ بنانے سے قبل یونس میمن سے ان کے ناموں کی منظوری لی۔ جس کے بعد ان جونیئر افسران کو یہ کہا گیا کہ سارا سسٹم متحدہ لندن کی طرز پر چلے گا۔ جو افسران سسٹم کا حصہ ہوں گے، ان کو ضلع کے 19 گریڈ کے ڈائریکٹر سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو ضلع کا ڈائریکٹر ہو گا، اس کا نام فرنٹ پر رکھ کر غیر قانونی تعمیرات کرائی جائے گی۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو یونس میمن کے غیر قانونی تعمیرات کا حصہ بننے والے ضلعی وسطی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کاشف سومرو نے بتایا کہ کراچی میں آغا مقصود عباس غیر قانونی تعمیرات کا سسٹم چلا رہا ہے اور اسے گلبرگ ٹائون کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ کاشف سومرو کا کہنا تھا کہ اس کا انتخاب آغا مقصود عباس کے قریبی معطل بلڈنگ انسپکٹر عبدالعاصم خان نے کیا۔ جس کا آٹے میں نمک سے بھی کم حصہ ہے۔ وہ غیر قانونی تعمیرات سے بھتہ وصول کر کے آغا کو دیتا ہے اور آغا مقصود عباس اپنے فرنٹ میمن عبدالعاصم خان کے ذریعے اس کا حصہ اسے دیتا ہے۔
کاشف سومرو کا کہنا ہے کہ ضلع وسطی کے ڈائریکٹر محمد رقیب کا کردار صرف ایک چپراسی کا ہے۔ ان سے اگر کوئی رابطہ کرتا ہے تو وہ عاصم خان یا مجھ سے رابطہ کر کے معاملات طے کرنے کا کہہ دیتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ گلبرگ ٹائون میں غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈر فیڈرل بی ایریا بلاک 9 میں Trimax hospital میں ایڈمنسٹریٹر کے کمرے میں بیٹھ کر بلڈروں سے غیر قانونی تعمیرات کے معاملات طے کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو فیڈرل بی ایریا کے ایک بلڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 14 رمضان المبارک کو اسے ضلع وسطی کے ڈائریکٹر محمد رقیب نے فون کر کے کہا کہ افطار کے بعد تراویح سے قبل فیڈرل بی ایریا بلاک 9 میں واقع Trimax Hospital میں آ کر ملے۔ وہ اس کی ملاقات سسٹم کے عبدالعاصم خان سے کرائیں گے۔ بلڈر نے بتایا کہ وہ 120 گز کے رہائشی پلاٹ پر گرائونڈ پلس ٹو پورشن بنا رہا تھا۔ جب اس نے رقیب کو کہا کہ اس نے غیر قانونی تعمیرات کے 2 لاکھ انہیں دے دیئے ہیں تو رقیب کا کہنا تھا کہ اب معاملات عاصم خان کے پاس ہیں۔ وہ سسٹم چلا رہے ہیں۔ بلڈر کے بقول وہ روزہ کھولنے کے بعد ٹرائی میکس اسپتال فیڈرل بی ایریا بلاک 9 پہنچا اوراس نے ڈائریکٹر محمد رقیب کو فون کیا۔ جس پر محمد رقیب نے انہیں اسپتال کے مرکزی دروازے پر رکنے کا کہا اور پھر وہ خود اسے لینے آئے اور اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر کے کمرے میں لے گئے۔ جہاں ایڈمنسٹریٹر کی سیٹ پر بیٹھے شخص کا تعارف عمیر ڈائیو کرایا گیا۔ جس نے ڈائریکٹر کے سامنے بلڈر سے رہائشی پلاٹ پر پورشن بنانے کے 8 لاکھ روپے طلب کئے اور کہا کہ اگر پیسے دو گے تو تعمیرات کرو، نہیں تو ہم اسے گرا دیں گے۔ اس موقع پر کمرے میں فرحان ایوب اور دیگر دو افراد بھی موجود تھے۔
بلڈر کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے افسران مافیا کی زبان بول رہے تھے۔ جس پر اس نے وہاں موجود افسران سے معاملات طے کر لئے۔ بلڈر کا کہنا تھا کہ وہ جو بتا رہا ہے وہ سب کچھ ہی ٹرائی میکس اسپتال کے کیمروں میں محفوظ ہوگیا، جہاں سے اس کی بات کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرائی میکس اسپتال میں جس ایس بی سی اے افسر عمیر ڈائیو نے بلڈر سے ملاقات کی اور خود کو سسٹم کا حصہ بتایا۔ وہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا معطل بلڈنگ انسپکٹر ہے اور اسے غیر قانونی تعمیرات کرانے کے الزام میں معطل کیا گیا تھا اور وہ تاحال معطل ہے اورآغاز مقصود عباس کے سسٹم کا حصہ ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں ہی آغا مقصود عباس کے فرنٹ مین معطل سینئر بلڈنگ انسپکٹر عبدالعاصم خان نے گلبرگ ٹائون کے سسٹم کا انچارج کاشف سومرو کو بنایا تھا، جو اس وقت بھی غیر قانونی تعمیرات کے سسٹم کا اہم ستون ہے۔ کاشف سومرو کے خلاف ماضی میں بھی غیر قانونی تعمیرات کی انکوائریاں چلتی رہی ہیں۔ لیکن سندھ سرکار میں اہم شخصیات سے تعلقات کی بنا پر وہ انکوائریاں سرد خانے کی نذر ہو جاتی تھیں۔ کاشف سومرو نے صرف ڈیڑھ ماہ کے اندر یونس میمن کے سسٹم کو 50 کروڑ سے زائد کما کر دیئے ہیں۔ فیڈرل بی ایریا کی اگر ڈیڑھ ماہ کے دوران ہونے والی غیر قانونی تعمیرات دیکھی جائے تو وہ تین برسوں میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کے برابر ہیں۔ کاشف سومرو بلڈرزکو ایس بی سی اے کی بلڈنگ کے سیکنڈ فلور یا پھر ڈیفنس خیابان بدر کمرشل ایریا بلاتا ہے۔ جہاں اس کے اوباش دوستوں کی محفلیں سجتی ہیں اور وہیں کمرشل اسٹریٹ پر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر بلڈروں کو ہراساں کر کے ان سے معاملات طے کرتا ہے۔ کاشف سومرو نے سسٹم کے نام پر بلڈرز سے نہ صرف رہائشی پلاٹوں پر تیسرے بلکہ چوتھے فلور بھی ڈلوائے۔ اگر کوئی بلڈر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے تو وہ اس بلڈر کے معاملات عاصم خان کے حوالے کر دیتا ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ کاشف سومرو کا بھی ایک فرنٹ مین فرحان ایوب ہے، جو معطل بلڈنگ انسپکٹر ہے اور بلڈر مافیا میں فرحان کالا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فرحان ایوب بلڈرز کو گھیر کر لاتا ہے۔ عزیز آباد میں علاقہ مکینوں نے ایک بلڈر کو ہراساں کرنے پر فرحان ایوب کی پٹائی کر دی۔ فرحان ایوب کی قمیض پھاڑ دی اور اتنا مارا کہ اسے اسپتال جانا پڑا۔ جس پر کاشف سومرو نے معاملہ عاصم خان کو بتایا تو اس نے سارے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کر کہا اور فرحان ایوب کو ایک لاکھ روپے دے کر اس کو بھی خاموش کرادیا۔ جبکہ فرحان ایوب اس کے ساتھ مار پیٹ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ کرانا چاہتا تھا۔ اگر مقدمہ درج ہو جاتا تو پھر یونس میمن کے سسٹم کا پول کھل جاتا۔ ذریعے کاکہنا ہے کہ آج کل کاشف سومرو اور عبدالعاصم خان کے درمیان ایک سرد جنگ چل رہی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ کاشف سومرو نے بعض بلڈرز سے سسٹم کے نام پر زیادہ بھتہ وصول کیا اور سسٹم کے عاصم خان کو کم رقم دی گئی۔ جب عاصم خان کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوا تو دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ جب عاصم خان نے کاشف سومرو کو ہٹانا چاہا تو اس نے آغا مقصود عباس کو سندھ سرکار کے ایک ذمہ دار سے فون کرا دیا۔ جس پر کاشف سومرو کو نہیں ہٹایا جا سکا۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ایک مقامی این جی او کی جانب سے 27 مئی 2021ء کو گورنر سندھ، چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری لوکل باڈیز اور ڈی جی ایس بی سی اے کو گلبرگ ٹائون کے 50 پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کی گئی۔ جو آغا مقصود عباس کے سسٹم کی مافیا کی جانب سے کرائی گئی تھیں۔ ان میں جن پلاٹوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان میں پلاٹ نمبر R-1196 بلاک 2 فیڈرل بی ایریا۔ پلاٹ نمبر R-1605 بلاک 2 فیڈرل بی ایریا۔ پلاٹ نمبر R-401-402 بلاک 2 فیڈرل بی ایریا۔ پلاٹ نمبر R-1092 بلاک 2 فیڈرل بی ایریا۔ پلاٹ نمبر R-1155 بلاک فیڈرل بی ایریا۔ پلاٹ نمبر R-681 بلاک 8 فیڈرل بی ایریا۔ پلاٹ نمبر R-1321 بلاک 2 فیڈرل بی ایریا۔ پلاٹ نمبر R-1321 بلاک 15۔ پلاٹ نمبر R-1284 بلاک 15۔ پلاٹ نمبر R-1414 بلاک 15۔ R-900 بلاک 14۔ پلاٹ نمبر R-930 بلاک 9۔ پلاٹ نمبر R-1192 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-1205 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-1169 بلاک 15۔ پلاٹ نمبر R-1468 بلاک 15۔ پلاٹ نمبر R-850 بلاک 15۔ پلاٹ نمبر R-1337 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-402 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-831 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-1926 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-1262 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-1337 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-1605 بلاک 2۔ پلاٹ نمبر R-169-170 بلاک 8۔ پلاٹ نمبر R-941 بلاک 9۔ پلاٹ نمبر R-1718 بلاک 14۔ پلاٹ نمبر R-1458 بلاک 14۔ پلاٹ نمبر R-1827 بلاک 14 اور دیگر شامل ہیں۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ گلبرگ ٹائون میں اینٹی کرپشن کے بعض افسران بھی غیر قانونی تعمیرات کرتے ہیں۔ کاشف سومرو نے ان کو بھی بلاکر ان سے بھاری رقوم وصولی کی ہیں۔ اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ عاصم خان کاشف سومرو سے بھتہ جمع کرنے کا چارج واپس لے لیں اور گلبرگ ٹائون کا کنٹرول اپنے پاس رکھیں۔ اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس نے حال ہی میں نارتھ ناظم آباد ٹائون کا غیر قانونی تعمیرات کا سسٹم عاصم خان کو خود چلانے کا کہا ہے۔ عاصم خان نے نارتھ ناظم آباد کا سسٹم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں عاصم صدیقی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو سونپا تھا۔ بعض ایسی اطلاعات ہیں کہ عاصم صدیقی نے سسٹم چلانے والی مافیا کے حوالے سے بعض نجی محفلوں میں بد کلامی کی۔ جس پر اسے وہاں سے ہٹایا گیا۔ ایس بی سی اے کے ذریعے کا کہنا ہے کہ نارتھ ناظم آباد میں در حقیقت آغا مقصود عباس کا سسٹم ایک بلڈر چلا رہا ہے۔ مذکورہ بلڈر نارتھ ناظم آباد میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات کراتا رہا ہے اور ماضی میں وہ نارتھ ناظم آباد کے ڈائریکٹر عادل عمر صدیقی کا فرنٹ میمن کہلاتا تھا۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات چھوٹے پلاٹوں پر کرا کے کروڑوں روپے کمانے والا اب نارتھ ناظم آباد کا ایک بڑا بلڈر بن گیا ہے۔ مذکورہ بلڈر ماضی میں جب منظور قادر کاکا ڈی جی تھے تو ان کے فرنٹ میمن ناصر کا چمچہ ہوتا تھا۔ منظور قادر کے بیرون ملک فرار کے بعد اس نے عادل عمر صدیقی کو اپنا بڑا بنا لیا اور جب آغا مقصود عباس ڈی جی بنے تو وہ ان کے قریب آ گیا۔ اب جب آغا مقصود عباس سسٹم کے مرکزی کردار کے فرنٹ میں بنے تو مذکورہ بلڈر نے ان سے نارتھ ناظم آباد پٹے پر لے لیا ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ مذکورہ بلڈر کی نارتھ ناظم آباد میں کئی رہائشی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات چل رہی ہیں۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ نارتھ ناظم آباد بلاک C میں پلاٹ نمبر C-41 پر غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں۔ اسی طرح پلاٹ نمبر A-155 بلاک R کے رہائشی پلاٹ پر بیسمنٹ اور دو فلور کی تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ ذریعے کے مطابق ایسی اطلاعات ہیں کہ مذکورہ بلڈر نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عاصم صدیقی کی آغا مقصود عباس سسٹم سے معافی کرا دی ہے اور اس وقت سارے معاملات عاصم صدیقی کے ذریعے ہی کنٹرول ہو رہے ہیں اور مذکورہ با اثر بلڈر صرف پشت پناہی کر رہا ہے۔
اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ عبدالعاصم خان نے نارتھ کراچی ٹائون کا ایریا خود اپنے پاس رکھا ہے۔ جہاں اس کے ساتھ عمران رضوی معاملات کو کنٹرول کر رہا ہے۔ نارتھ کراچی میں بلڈر مافیا سے معاملات عمران رضوی طے کراتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ عاصم خان اور عمران رضوی ایک طویل عرصے تک جمشید ٹائون میں ساتھ ملازمت کرتے رہے ہیں۔ جہاں ان کا یارانہ مضبوط ہو گیا تھا۔ اس کے بعد عاصم خان نے پہلے عمران رضوی کو ناظم آباد اور لیاقت آباد میں غیر قانونی تعمیرات کی ذمہ داری دی۔ لیکن جب عمران رضوی کا غیر قانونی تعمیرات میں نام زیادہ آنے لگا اور عاصم خان کو شبہ ہوا کہ اس کی بدنامی کی صورت میں اس کا نام بھی آئے گا تو اس نے عمران رضوی کو وہاں سے ہٹا کر اپنے ساتھ ہی رکھ لیا۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ عمران رضوی عاصم خان کے غیر قانونی تعمیرات کے تمام معاملات سے واقف ہے۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ضلع شرقی میں گلشن اقبال، گلستان جوہر اور گلشن ٹو کے علاقے بھی آغا مقصود عباس سسٹم کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ گلشن اقبال کی اسکیم25 پٹہ سسٹم کے منصور عالم کے حوالے کی گئی ہے۔ منصور عالم ایک طویل عرصے تک نارتھ ناظم آباد ٹائون میں تعینات رہا اور وہاں غیر قانونی تعمیرات کا سسٹم چلاتا رہا ہے۔ اس وقت گلشن اقبال کی اسکیم 26 میں تمام غیر قانونی تعمیرات منصور عالم کی سرپرستی میں ہو رہی ہیں۔ جبکہ گلشن اقبال کی اسکیم 24 آغا مقصود عباس کے قریبی دوست فاروق کے پاس ہے۔ اسکیم 33 کو حزب اللہ کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ اسکیم 33 میں کراچی یونیورسٹی کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی، گوالیار کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی، اسٹیٹ بینک کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی، ٹیچرز کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی، کوئٹہ ٹائون کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی، کنیز فاطمہ کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی اور دیگر کو آپریٹو ہائوسنگ سوسائٹیوں میں بڑے پیمانے پرغیر قانونی تعمیرات کرائی جا رہی ہیں۔ ذریعے کے مطابق گوالیار سوسائٹی میں کمرشل پلاٹوں پرگرائونڈ پلس ڈھائی فلور کا قانونی نقشہ پاس ہوتا ہے۔ لیکن 90 گز کے کمرشل پلاٹ پر4 اور5 منزلہ تعمیرات ہو رہی ہیں۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ گلشن اقبال ٹو جس میں بہادر آباد، پی آئی بی کالونی، شرف آباد کے علاقے آتے ہیں۔ ان کو پٹہ سسٹم نے شہزاد کھوکھر کے حوالے کر رکھا ہے۔ جبکہ جمشید ٹائون بھی شہزاد کھوکھر ہی کنٹرول کر رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ شہزاد کھوکھر عرف شہزادو پر بھی آغا مقصود عباس کا خصوصی دست شفقت ہے۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ شہزاد کھوکھر کو پہلے گلبرگ ٹائون کی ذمہ داری دی گئی تھی اور اس کی باقاعدہ تعیناتی گلبرگ ٹائون میں کی گئی۔ اسی دوران شہزاد کھوکھر نے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے قریبی عزیز کو بھتہ دینے پر مجبور کیا۔ جس کی شکایت سرکاری افسر نے خود ایس بی سی اے کے دفتر جا کر کی۔ اس پر موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے شمس الدین سومرو کو شہزاد کھوکھر کو معطل کرنا پڑا اور انہیں گلبرگ ٹائون سے ہٹا دیا گیا۔ جس کے بعد آغا مقصود عباس نے شہزاد کھوکھر کو گلشن ٹو اور جمشید ٹائون کی ذمہ داریاں دے دیں۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ضلع جنوبی میں صدر ٹائون میں غیر قانونی تعمیرات کی ذمہ داری علی خان کے حوالے کی گئی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ علی خان پہلے گلبرگ کا سسٹم چلاتا رہا ہے۔ جس کے بعد اسے گلستان جوہر اور اسکیم 33 کا سسٹم چلانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ ذریعے کا دعویٰ ہے کہ علی خان سندھ کی ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کے دوست جاوید شیخ کا بھی قریبی مانا جاتا ہے۔ ایس بی سی اے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ جاوید شیخ اندرون سندھ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے سندھ سرکار کی اہم شخصیات سے خصوصی مراسم ہیں۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ جاوید شیخ کے کہنے پر ہی علی خان کو آغا مقصود عباس نے صدر ٹائون کا سسٹم دیا ہے۔ اس وقت علی خان اور عبدالعاصم خان مل کر صدر ٹائون میں پٹہ سسٹم کے تحت غیر قانونی تعمیرات کرا رہے ہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ صدر ٹائون کے پلاٹ نمبر LR-7/19، پلاٹ نمبر 4055 عثمان آباد، پلاٹ نمبر RS-2/39، پلاٹ نمبر RC-5/95/96، پلاٹ نمبر LR-8/23، پلاٹ نمبر LR-8/15، پلاٹ نمبر LR-9/10، پلاٹ نمبر GRW-181، پلاٹ نمبر GRW-63/1/4، پلاٹ نمبر GRW/64/1، پلاٹ نمبر LR-51/6، پلاٹ نمبر LR-7/20، پلاٹ نمبر GRW-51/2، پلاٹ نمبر NP-4/34، پلاٹ نمبر RS-8/25، پلاٹ نمبر GRW-63/1/8، پلاٹ نمبر RC-19/4، پلاٹ نمبر GK-671، پلاٹ نمبر NP-73/6، پلاٹ نمبر NP64/10، پلاٹ نمبر GK-6/101، پلاٹ نمبر GRW-68/2، پلاٹ نمبر OT-1/22، پلاٹ نمبر OT-1/109، پلاٹ نمبر OT-2/32/33، پلاٹ نمبر OT-8/118، اور پلاٹ نمبر RY-11/7/8 شامل ہیں۔ اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ صدر ٹائون I میں پٹہ سسٹم سے مزید جو ایس بی سی اے افسران جڑے ہیں۔ ان میں یاور عباس، احسن ریاض اور عمیر شامل ہیں۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں موجودہ ڈائریکٹر جنرل شمس الدین سومرو صرف ایک ڈمی ڈائریکٹر جنرل ہیں اور ان کا کام صرف ڈاک پر دستخط کرنا اور پٹہ سسٹم کے حکم پر تبادلے و تقرریاں کر کے اپنا حصہ خاموشی سے وصول کرنا ہے۔ اگر کوئی شہری ڈی جی ایس بی سی اے کو غیر قانونی تعمیرات کی شکایت دیتا ہے تو اس کا واٹس ایپ فوری طور پر آغا مقصود عباس کو کر دیا جاتا ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ آغا مقصود عباس کو یونس میمن کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ایس بی سی اے میں موجود تمام افسران موجودہ ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو کے بجائے ان کے احکامات مانیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ ڈائریکٹر شمس الدین سومرو صرف ایک ڈمی کے طور پر عہدہ پر براجمان ہیں۔
غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈرزسے پولیس کی بھتہ وصولی جاری
شہرمیں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات سے پولیس بھی بھتہ وصول کرنے لگی۔ ضلع وسطی کا ماڈل تھانہ جوہر آباد فیڈرل بی ایریا میں غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈروں سے فی سائٹ بھتہ وصول کر رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق جوہر آباد پولیس نے 120 گز کے رہائشی پلاٹ پر کمرشل پورشن بنانے والے بلڈروں سے ایک لاکھ روپے اور غیر قانونی تیسرا فلور ڈالنے والے بلڈروں سے بھتہ کا ریٹ ڈیڑھ لاکھ طے کر رکھا ہے۔ جوہر آباد تھانے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلڈرز کو پولیس موبائل بھیج کر تھانے بلایا جاتا ہے۔ جو بلڈر تھانے نہیں آتا اس کی سائٹ سے پولیس موبائل مزدور اٹھا کر لے جاتی ہے۔ ایک بلڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کی سائٹ سے دو مرتبہ پولیس مزدوروں کو تھانے لے کر گئی۔ جہاں اس نے ایک لاکھ میں معاملات طے کئے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ جوہر آباد پولیس ایس ایس پی آفس کے نام پر بھتہ وصول کرتی ہے اور بلڈروں سے کہا جاتا ہے کہ حصہ اوپر افسران کو دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح عزیز آباد پولیس نے بھی بلڈروں سے 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے میں معاملات طے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ جبکہ گلشن اقبال اور گلستان جوہر تھانہ بھی بلڈروں سے بھتہ وصول کر رہا تہے۔ گلستان جوہر کے بلڈر کا کہنا ہے کہ انہیں تھانے بلا کر 2 لاکھ طلب کئے جاتے ہیں اور معاملات ایک سے ڈیڑھ لاکھ میں طے کئے جاتے ہیں۔