امت رپورٹ:
حکمراں جماعت تحریک انصاف کے خلاف جاری فارن فنڈنگ کیس ایک نہ ختم ہونے والا قصہ بن گیا ہے۔ رواں برس نومبر میں اس داستان کو پورے سات برس ہو جائیں گے لیکن تاحال اس کا اختتام دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کیس کی تازہ صورت حال کے مطابق پی ٹی آئی کی مالیاتی دستاویزات کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہوئے تقریباً تین ہفتے ہونے کو آئے۔ لیکن اب تک متعلقہ اسکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائی جبکہ کمیٹی نے جلد ہی اپنا اجلاس بلانے کا کہا تھا۔
واضح رہے کہ اس رپورٹ کے جمع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان نے پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت کا آغاز کرنا ہے۔ یوں بظاہراس کیس کا منطقی انجام قریب دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن اس کیس کے پس منظر اور ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ داستان مزید طویل ہونا خارج از امکان نہیں۔ چونکہ اسکروٹنی کمیٹی کے اجلاسوں کی کھلی سماعتوں پر پابندی ہے۔ لہٰذا اس کیس میں ڈالی جانے والی رکاوٹوں اور برائے نام ہونے والی پیش رفت سے عوام کی اکثریت لاعلم رہتی ہے۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہونے کے باوجود تاحال اسکروٹنی کمیٹی کا اجلاس نہ بلانے اور معاملہ آگے نہ بڑھنے کے تانے بانے الیکشن کمیشن کے دو صوبائی ارکان کی جولائی میں ہونے والی ریٹائرمنٹ سے بھی جڑے ہیں۔ اس صورت میں یہ کیس مزید لٹک جائے گا، کہ نئے ارکان کی تقرری تک الیکشن کمیشن نامکمل تصور کیا جائے گا۔ یوں فارن فنڈنگ کیس کی اوپن سماعت روکنے کا ایک جواز پی ٹی آئی کے پاس آجائے گا۔ اسی طرح جولائی میں اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی درخواست پر نومبر دو ہزار چودہ میں فارن فنڈنگ کیس شروع ہوا تھا۔ پچھلے سات برسوں کے دوران اس کیس کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے کیا حربے آزمائے جاتے رہے۔ اس کی بیشتر تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں۔ لہٰذا اس کا ذکر کیے بغیر صرف گزشتہ تین برس کے معاملات کا جائزہ لیا جائے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے غیر ملکی فنڈز کی جانچ پڑتال کے لیے تشکیل دی گئی اسکروٹنی کمیٹی، جسے ایک ماہ کے اندر اپنی حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرانی تھی۔ تین برس بعد بھی یہ عمل مکمل نہیں کر سکی ہے۔
اپریل دو ہزار اٹھارہ کو الیکشن کمیشن پاکستان نے تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈز کی جانچ پڑتال کے لیے ڈی جی قانون محمد ارشاد کی سربراہی میں یہ اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی کو ایک ماہ میں تمام امور نمٹانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ تاکہ فارن فنڈنگ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے حتمی سماعت کا آغاز کیا جا سکے۔ لیکن اسکروٹنی کمیٹی کا عمل مسلسل طویل ہوتا چلا گیا۔ جولائی دو ہزار اٹھارہ میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پی ٹی آئی کے ملک کے مختلف شہروں میں مجموعی طور پر چھبیس بینک اکائونٹس ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن میں صرف آٹھ کو ظاہر کیا گیا۔ اس طرح دیگر اٹھارہ بینک اکائونٹس جعلی یا غیر قانونی اکائونٹس کے زمرے میں شمار ہوئے۔ کیونکہ پی ٹی آئی نے قانون کے تحت ان اٹھارہ بینک اکائونٹس کو الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اپنی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ تاہم ان بینک اکائونٹس کی جانچ پڑتال میں اسکروٹنی کمیٹی نے مزید دو برس گزار دیئے۔
ذرائع نے بتایا کہ جنوری دو ہزار بیس کو جب نئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اپنی ذمے داریاں سنبھالیں تو فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد ہونے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔ کیونکہ سکندر سلطان راجہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کسی کے دبائو میں نہیں آتے۔ اس بارے میں چیف الیکشن کے قریبی ذرائع ڈسکہ کے ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن کے علاوہ انتخابی اصلاحات سے متعلق حکومتی آرڈی نینس کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے لیے جانے والے اسٹینڈ کو حوالے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق نئے چیف الیکشن کمشنر کے اس اعلان سے بھی حکومتی صفوں میں ہلچل پیدا ہو گئی تھی۔ جس میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد فارن فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت ہو گی۔ اور یہ کہ الیکشن کمیشن کسی خوف و دبائو کے بغیر کیس کا فیصلہ سنائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ چیف الیکشن کمشنر ہی تھے۔ جنہوں نے اسکروٹنی کمیٹی کی سست روی کا نوٹس لیا اور گزشتہ برس اگست میں ایک ہفتے کے اندر کمیٹی کو اپنی حتمی رپورٹ جمع کرانے کی مہلت دی تھی۔ جس پر کمیٹی نے ستمبر دو ہزار بیس میں فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کو اپنی رپورٹ جمع کرا دی۔ تاہم یہ ایک بودی رپورٹ تھی۔ لہٰذا الیکشن کمیشن نے اس رپورٹ کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق نئے الیکشن کمشنر کے تیور کو دیکھتے ہوئے حکمراں پارٹی نے اب اسکروٹنی کمیٹی پر دبائو ڈالنے کا طریقہ کار اپنا رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانچ کا عمل مکمل ہونے میں نہیں آرہا۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے ڈی جی قانون اور اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ محمد ارشد کا موقف معنی خیز ہے۔ قریباً دو ماہ قبل ایک سماعت کے موقع پر جب خیبر پختون سے الیکشن کمیشن کی خاتون رکن جسٹس (ر) ارشاد قیصر نے ڈی جی قانون سے استفسار کیا کہ جانچ کا عمل کب تک جاری رہے گا؟ تو ڈی جی قانون کا جواب تھا کہ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا۔ فارن فنڈنگ کیس میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب رواں برس الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی مالی دستاویزات تک رسائی سے متعلق اکبر ایس بابر کی درخواست تسلیم کرلی۔ بعدازاں درخواست گزار کی جانب سے نامزد دو چارٹرڈ اکائونٹ ارسلان وردگ اور محمد صہیب کو تحریک انصاف کی مالی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی اجازت دے گئی۔ جانچ پڑتال کا یہ عمل رواں برس اپریل کے آخر میں شروع ہوا تھا۔ اور دو جون کو اختتام پذیر ہو گیا۔
پی ٹی آئی کی مالیاتی دستاویزات کی جانچ کا یہ عمل مجموعی طور پر پچپن گھنٹے جاری رہا۔ لیکن اس عمل میں پی ٹی آئی کے اصل بینک اکائونٹس دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ درخواست گزار کے وکیل اور دونوں چارٹرڈ اکائونٹنٹ کو صرف نقول دکھائی گئیں۔ یہ نقول بھی صرف ان دستاویزات کی تھیں، جو اپنے دفاع میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرا رکھی ہیں۔ جبکہ اسٹیٹ بینک کے ذریعے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جانے والے چھبیس اکائونٹس چھپائے گئے۔ اسی طرح سے وہ چار بینک اکائونٹس بھی دکھانے سے انکار کیا گیا، جن کے بارے میں پی ٹی آئی کے ملازمین نے تسلیم کیا تھا کہ وہ ان اکائونٹس سے پارٹی چندہ جمع کرتے رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی مالی دستاویزات کی جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ فارن فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت کا جلد آغاز ہو جائے گا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر جانچ پڑتال کا عمل مکمل ہونے کے تقریباً تین ہفتے بعد بھی اب تک نہ کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ہے۔ اور نہ ہی کمیٹی نے اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن کو پیش کی ہے۔ یہ رپورٹ تیس مئی تک الیکشن کمیشن میں جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔ اس بارے میں جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ کمیٹی کے ایک رکن بیمار ہیں۔ جب وہ صحت مند ہو کر آئیں گے تو اجلاس بلا لیا جائے گا۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل الیکشن کمیشن پاکستان کے دو صوبائی ارکان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جارہا ہے۔ تاکہ الیکشن کمیشن نامکمل ہونے کا جواز بنا کر کھلی سماعت کے عمل کو مزید لٹکایا جا سکے۔ خیبر پختون سے الیکشن کمیشن کی رکن جسٹس (ر) ارشاد قیصر اور پنجاب کے رکن جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی اگلے ماہ جولائی میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن پاکستان کے یہ دونوں صوبائی ارکان آزاد منش طبیعت کے مالک ہیں۔ اور ان کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ دبائو تسلیم نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کی مالی دستاویزات تک درخواست گزار کو رسائی کی اجازت دلانے میں بھی ان دونوں ارکان نے اہم رول ادا کیا تھا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ان دونوں صوبائی ارکان کی موجودگی میں فارن فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت شروع ہونے سے حکومت خائف ہے۔ لہٰذا دونوں ارکان کے ریٹائر ہونے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ اسی طرح جولائی میں اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ اور الیکشن کمیشن کے ڈی جی قانون محمد ارشد بھی ریٹائر ہو رہے ہیں۔ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ ڈی جی قانون کی مدت ملازمت میں توسیع دی جائے گی یا نیا ڈی جی قانون اپنی ذمے داری سنبھالے گا۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ درخواست گزار اکبر ایس بابر کے نامزد چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کی مالی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران لیپ ٹاپ اور موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہٰذا پچپن گھنٹے پر مشتمل یہ جانچ پڑتال دونوں چارٹرڈ اکائونٹنٹ کو دستی کرنی پڑیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس عمل کے دوران اس وقت ہلچل مچ گئی۔ جب اسکروٹنی کمیٹی نے غلطی سے پی ٹی آئی کے حبیب کے اصل بینک اکائونٹس کی تفصیلات چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے سامنے پیش کر دیئے۔ جس پر وہاں موجود پی ٹی آئی کے وکیل نے شور شرابا کیا۔ بعدازاں دس منٹ بعد ہی یہ اصل بینک اکائونٹس واپس بھیج دیئے گئے۔