حافظ سعد رضوی اور ارکانِ شوریٰ سمیت ساڑھے پانچ سو کے قریب کارکن جیلوں میں بند ہیں۔فائل فوٹو
حافظ سعد رضوی اور ارکانِ شوریٰ سمیت ساڑھے پانچ سو کے قریب کارکن جیلوں میں بند ہیں۔فائل فوٹو

حکومت سے معاہدہ ٹی ایل پی کو بند گلی میں لے گیا

نجم الحسن عارف:
تحریک لبیک پاکستان حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد عملاً بند گلی میں پہنچ گئی ہے صرف لاہور میں امیر تحریک لبیک حافظ سعد رضوی اور ارکانِ شوریٰ سمیت ساڑھے پانچ سو کے قریب کارکن جیلوں میں بند ہیں۔ حکومت نے تحریک لبیک کی قیادت کی طرف سے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی تحریک کے ساتھ ہر طرح کے رابطے منقطع کر دیے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس صورت حال میں ارکانِ شوریٰ بھی بے یقینی کا شکار ہیں۔ اکثر نے اپنے لینڈ لائن فون اور موبائل فون پر رابطے محدود کر دیے ہیں۔ جبکہ ارکان شوریٰ میں یہ احساس شدت اختیار کر گیا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ کے ویڈیو اعلانات پر اعتماد کر کے غلطی کی۔ تاہم اب تحریک لبیک کی موجود قیادت کارکنوں اور حامیوں کو کوئی بھی لائحہ عمل فوری طور پر دینے سے قاصرہے۔
ذرائع کے مطابق شوریٰ کا جو بھی رکن متحرک ہونے کی کوشش کرتا ہے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے تحریکِ لبیک پر پابندی عائد کرنے کے بعد قائم کی گئی ریویو کمیٹی نے بھی عملاً تحریک لبیک کے ذمہ داران کے سامنے اپنی بے بسی ظاہر کر دی ہے۔ 21 جون کو حکومت کی طرف سے قائم کردہ ریویو کمیٹی نے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے حکومتی اعلان کے حوالے سے سماعت کی۔ اس موقع پر تحریک لبیک کے نمائندوں کی جانب سے ریویو کمیٹی کو باور کرایا گیا کہ تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ حکومتی خواہشات پر مبنی درج کرائی گئی ایک ایف آئی آر کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ لیکن ایک ایف آئی آر کے سوا کوئی شہادت یا ثبوت ایسا نہیں جسے تحریک لبیک کے خلاف حکومت پیش کر سکے۔
ریویو کمیٹی میں تحریک لبیک کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل احسان عارف ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’کمیٹی کے حکومتی ارکان کے پاس ٹھوس جواب نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے صاف طور پر اعتراف کیا کہ ان کا دائرہ اختیار محدود ہے۔‘‘ واضح رہے کہ ریویو کمیٹی کو زیادہ سے زیادہ تاخیر بھی اگر ہوئی تو اسے ماہ جولائی کے ابتدائی دنوںمیں ہی اس بارے میں فیصلہ کرنا پڑے گا۔ البتہ یہ ریویو کمیٹی پر ہے کہ وہ تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے سے متعلق حکومتی اعلان کو ختم کر کے اس کی پہلے والی حیثیت بحال کر دیتی ہے یا اسے کالعدم ہی رکھتی ہے۔ تاہم تحریک لبیک کے پاس ریویو کمیٹی کے اس فیصلے کے خلاف جانے کی ضرورت ہوئی تو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق رکھے گی۔

\واضح رہے تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد رضوی کے حوالے سے دائر کردہ ضمانت کی درخواست ہائی کورٹ سے خارج ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل زیر سماعت ہے۔ امید ہے کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں جلد درخواست کی سماعت ہوگی۔ تحریک لبیک کے وکیل احسان عارف ایڈووکیٹ نے حافظ سعد رضوی کے ساتھ جیل میں ملاقاتوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’شروع میں ان کی چھوٹے بھائی کی ملاقات ہوئی ہے۔ مگر پارٹی قیادت کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ یوں عملاً ان سے رابطہ منقطع ہے۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں عارف احسان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’حالیہ چند ہفتوں میں شوریٰ کے ارکان بھی گرفتار ہوئے ہیں اور عام کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے بھی چھاپے مارے جاتے ہیں۔ عملاً پولیس کی مرضی ہے وہ جس کو چاہے پکڑ لے اور جب چاہے پکڑ لے۔ مجلس شوریٰ کے رکن انجینئر حفیظ علوی کی دو مقدمات اندراج شدہ بالترتیب بارہ اور تیرہ اپریل کو عدالت نے عبوری ضمانت منظور کر لی تو حکومت نے 16 اپریل کی تاریخ میں ایک مقدمہ ان کے خلاف بنیاد بنا کر گرفتار کر لیا۔ اس سے پہلے 16 اپریل والا مقدمہ ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن جب دو مقدمات میں ضمانت ہو گئی تو تیسرے میں اچانک گرفتار کرلیا گیا۔ اب یہ عجیب صورت حال ہے کہ ان کی عبوری ضمانت بھی چل رہی ہے اور حراست بھی جاری ہے۔ اسی طرح شوریٰ کے رکن فاروق الحسن بھی گرفتار ہیں اور غلام غوث البغدادی بھی گرفتار ہیں۔ وہ لاہور سے واپس کراچی جارہے تھے کہ انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں احسان عارف ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’’اس میں شک نہیں کہ شوریٰ کے بہت سے ارکان کے فون نمبرز اب بند ہو چکے ہیں۔ حکومت ماضی میں تحریک لبیک کے ذمہ داروں کے ساتھ رابطہ میں رہتی تھی، لیکن حکومتی معاہدے کے باضابطہ اعلان کے بعد دھرنا ختم ہونے کے ساتھ ہی جیسے حکومت دبائو سے نکل آئی اور اس نے ارکان شوریٰ کے ساتھ رابطے ختم کر دیے۔ اب پولیس ہے اور تحریک لبیک کے قائدین اور کارکن ہیں۔ اس صورت حال میں تحریک کے شوریٰ ارکان کے موبائل فون بند ہو جانا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ کیونکہ تحریک لبیک کی شوریٰ کے ارکان اور ذمہ داران نیک نیتی کے ساتھ حکومتی عہدیداروں سے رابطے میں تھے اور معاہدہ کررہے تھے۔ مگر حکومت کے ذمہ داروں کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں تحریک لبیک کے وکیل احسان عارف ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’تحریک کی طرف سے حکومتی وعدہ خلافی اور دو مرتبہ معاہدے سے روگردانی کے بعد واقعی ایک سوراخ سے دو مرتبہ ڈسے جانے والی بات ہوگئی ہے۔ اس کے بعد پارٹی کے ذمہ دار تا حال کوئی لائحہ عمل نہیں دے پارہے اسی وجہ سے اکثر رہنما اور ان کے موبائل فون خاموش ہیں۔ انجینئر حفیظ علوی قیادت اور کارکنوں کے خلاف مقدمات کو دیکھ رہے تھے کہ حکومت نے انہیں بھی گرفتارکرلیا۔ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے۔ تاہم قانونی و عدالتی محاذ پر جدوجہد جاری ہے۔ اگرعدالتوں نے تحریک لبیک کا موقف پوری طرح سن لیا تو انصاف ملنے کی بڑی امید ہے۔ فی الحال تو پارٹی کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ کیونکہ پارٹی کے رہنمائوں نے حکومتی عہدیداروں پراعتماد کیا، اس کے بعد حالات کو حکومت نے یکسر بگاڑ کے راستے پر ڈال دیا۔ مگر تحریک لبیک قانون کے دائرے میں رہنے کی کوشش کررہی ہے۔