وجیہ احمد صدیقی:
وزیر اعظم عمران خان کے بنی گالا کے محل نما فارم ہاؤس کو قانونی بنانے اور اس کی غیر متنازعہ حیثیت ختم کرنے کیلیے حکومتی اختیارات استعمال ہوئے۔ ذرائع کے مطابق بنی گالا کی رہائش گاہ کو قواعد وضوابط کے دائرے میں لانے کیلیے سی ڈی اے کو اپنے قوانین تبدیل کرنا پڑے تھے۔
2019ء میں وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم کے محل کو قانونی بنانے کیلیے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے نئے قواعد کی کابینہ سے منظوری لی تھی۔ اس سے قبل زون فائیو میں کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں تھی، اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل تھا۔ اس کی تعمیر کو قانونی بنانے کے لیے کابینہ کی جانب سے اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹر ریزیڈنشیل سیکٹرز زوننگ (بلڈنگ کنٹرول) ریگولیشنز 2020ء جاری کیا گیا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے محل کو قانونی تحفظ دینے کے لیے وفاقی کابینہ نے دسمبر 2018ء میں اقتدار میں آتے ہی ایک کمیشن تشکیل دیا تھا، جس کا کام اسلام آبادکے ماسٹر پلان پر نظرثانی کرنا تھا۔ کمیشن نے اپنی سفارشات پیش کردی تھیں، لیکن ایک کنسلٹنٹ فرم کی جانب سے نظر ثانی کی گنجائش چھوڑ دی تھی۔ لیکن سی ڈی اے کی جانب سے ماسٹر پلان پر نظرثانی یا اس میں تبدیلی کے لیے کسی کنسلٹنٹ فرم کی خدمات نہیں حاصل کی گئیں۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے سپریم کورٹ میں ہی یہ انکشاف ہوچکا تھا کہ عمران خان کے محل کے سائٹ پلان کی کبھی منظوری لی ہی نہیں گئی۔
22 فروی 2018ء کو سپریم کورٹ میں بنی گالا میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ بنی گالا میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے گھر کی تعمیر کا سائٹ پلان منظور شدہ نہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ یہ مقدمہ سن رہا تھا۔ سماعت کے آغاز میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے بنی گالا میں عمران خان کے گھر کے نقشے کی دستاویزات عدالت میں پیش کیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دستاویزات کے متعلق کہا کہ انہوں نے بنی گالا کی دستاویزات سے متعلق یونین کونسل کا ریکارڈ چیک کیا، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ عمران خان نے 1999ء سے آج تک سائٹ پلان کی منظوری نہیں لی۔
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یونین کونسل بھارہ کہو کا این او سی 1990ء کا ہے۔ عمران خان نے زمین خریداری کی فیس 2002ء میں ادا کی اور 250 کنال اراضی پر گھر کی تعمیر کے لیے نقشہ یونین کونسل میں جمع کرایا تھا، جس کا 2003ء میں سرٹیفکیٹ بھی موصول ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا راول ڈیم کے اردگرد آبادی کو ریگولرائز کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا گیا؟ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے 1999ء میں فیصلہ دیا تھا، تاہم 20 برس گزر جانے کے باوجود سی ڈی اے نے اس حوالے سے قوائد و ضوابط نہیں بنائے۔
یاد رہے کہ 13 فروری 2018ء کو سپریم کورٹ نے عمران خان کو بنی گالا میں تعمیر اپنی 300 کنال کی رہائش گاہ کا منظور شدہ سائٹ پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن عمران خان عدالت میں منظور شدہ پلان نہیں جمع کراسکے تھے۔ عمران خان کے بنی گالا محل کا کُل رقبہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 300 کنال ہے۔ ایک کنال 600 مربع گز کے مساوی ہے۔ اس طرح عمران خان کے محل کا کُل رقبہ 1 لاکھ 80 ہزار مربع گز ہے۔ یہ گھر مارگلہ ہلز کی ایک درمیانی بلندی کی پہاڑی پر واقع ہے۔ جہاں جانے والے صحافی اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہاں ٹیلی فون کے سگنلز نہیں آتے۔ اس پہاڑ کے دامن سے اسلام آباد کا منظر بہت ہی خوب صورت نظر آتا ہے۔ اس کی کمرشل مالیت تو اربوں روپے کی ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان نے اس محل کی ریگولرائزیشن فیس 12 لاکھ روپے 6 ہزار روپے ادا کی۔
اس وقت سی ڈی اے کے افسران نے بتایا تھا کہ عمران خان کا گھر زون فائیو کے سب زون بی میں واقع ہے، جہاں کوئی بھی تعمیر حکام کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ (پہلے سی ڈی اے کا یہ قانون تھا کہ یہاں کوئی بھی کمرشل، رہائشی تعمیر نہیں ہوسکتی اس کی کسی بھی صورت اجازت نہیں ہے۔) لیکن اب اس علاقے میں تعمیر کی اجازت مل جاتی ہے اور بلکہ بلا اجازت تعمیر شدہ گھروں کو ریگولرائز کردیا جاتا ہے۔ اسی لیے سی ڈی اے نے وزیر اعظم سے ریگولرائزیشن فیس لے کر ان کے گھر کو ریگولرائز کردیا۔ وزیر اعظم کے گھر کا ریگولرئزایشن سرٹیفیکٹ سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر رحیم بنگش نے جاری کیا۔ عمران خان نے یہ گھر سی ڈی اے کی اجازت حاصل کیے بغیر تعمیر کیا تھا۔
کابینہ کی جانب سے سی ڈی اے کے نئے قواعد بنائے گئے جس کے تحت عمران خان کے محل نما گھر کو ریگولرائز کیا گیا۔ موضعہ موہرہ نور اسلام آباد کے ایک بڑے علاقے کی ملکیت عمران خان کی قرار پائی۔ سی ڈی اے نے وزیر اعظم عمران خان سے یہ حلف نامہ بھی لیا ہے کہ وہ آئندہ سی ڈی اے کے قواعد و ضوابط اور فیصلوں کی پابندی کریں گے۔ اگرچہ سی ڈی اے کے افسران یہ کہتے رہے کہ وزیر اعظم کا گھر اس علاقے میں واقع ہے جہاں تعمیرات کی اجازت ہے، لیکن سی ڈی اے میں کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا جہاں اس علاقے میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کے منصوبے کی منظوری دی جاتی ہو۔ یعنی اب بھی اس علاقے میں تعمیرات کی اجازت نہیں ہے۔ سی ڈی اے کی اجازت کے بعد عمران خان بنی گالا کے 300 کنال کے قانونی مالک ہوگئے اور اس کے 20 فیصد رقبے پر وہ تعمیرات کرسکتے ہیں۔ یعنی وہ 60 کنال (36 ہزار گز) پر تعمیرات کرسکتے ہیں۔ اس وقت انہوں نے 11 ہزار 371 مربع فٹ پر تعمیرات کی ہوئی ہیں۔
اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹرریذیڈنشیل سیکٹرز زوننگ (بلڈنگ کنٹرول) ریگولیشنز 2020ء کے تحت اب اس علاقے میں تعمیر شدہ دیگر گھروں کو بھی قانونی تحفظ مل گیا ہے، ان سب نے بھی ریگولرائزیشن فیس جمع کرا دی ہے۔ اب اس قانون کے تحت زون 2، زون 4 اور زون 5 میں بلا اجازت کی گئی تعمیرات کو ریگولرائز کرایا جاسکتا ہے۔ سی ڈی اے کے قواعد کو اکتوبر 2018ء میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد تبدیل کیا گیا جس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ صرف عدالت منصف نہیں ہے، ہر شخص جس کے پاس سرکاری ذمہ داری ہے اس کو انصاف کرنا ہے، عدالت لیز ہولڈرز کے حقوق کا دوبارہ تعین کرے گی، چیئرمین سی ڈی اے لیز زمین کا ماہرین کے ساتھ جائزہ لیں، لیز ہولڈرز نے شرائط پوری کر دیں تو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ بنی گالا میں جو تعمیرات ہو چکی ہیں، انہیں نہیں گرائیں گے۔ سی ڈی اے ریگولیشن کا جو طریقہ کار طے کرے گا اس پر کار بند ہونا پڑے گا۔ دیگر اداروں کی سی ڈی اے کو معاونت فراہم کی جائے۔ اس کو سیاسی بیان نہ سمجھیں، عمران خان اس کیس میں درخواست گزار ہیں، سب سے پہلا گھر عمران خان کا ریگولرائز ہوگا، سب سے پہلے جرمانہ بھی عمران خان کو ادا کرنا ہوگا، تاکہ لوگوں کو علم ہو عمران خان نے جرمانہ ادا کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے وقت سپریم کورٹ نے بنی گالا تعمیرات ریگولر کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی، چیئرمین سی ڈی اے، وزارت داخلہ، سیکریٹری ہاؤسنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹریز کمیٹی کا حصہ تھے۔ عدالت نے ان کو 10 دن میں ریگولرائزیشن کا طریقہ کار وضع کرنے کا حکم دیا تھا۔
عمران خان نے 2020ء میں الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثوں کی جو تفصیلات جمع کرائی ہیں ان کے مطابق عمران خان کے اثاثوں کی کُل مالیت 8 کروڑ 6 لاکھ روپے ہے۔ الیکشن کمیشن کی دستاویز کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان کے پاس پاکستان میں 10 غیر منقولہ جائیدادیں ہیں۔ انہیں زمان پارک لاہور میں 7 کنال کا وراثت میں ملا گھر ہے، جس کی تعمیر پر 4 کروڑ 53 لاکھ روپے اخراجات آئے۔ عمران خان کو بنی گالا میں 300 کنال کا گھر بطور تحفہ ملا۔ گھر کی اضافی تعمیر پر 1 کروڑ 14 لاکھ روپے خرچ آیا۔ ان کے پاس موہڑہ نور میں 50 لاکھ روپے مالیت کا 6 کنال کا پلاٹ ہے، انہیں میانوالی، بھکر، شیخوپورہ اور خانیوال میں 5 اراضی وراثت میں ملی ہیں۔ وزیر اعظم کے لیے قواعد کو تبدیل کرنے کا ذکر پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بھی اس سال جنوری میں آیا، جہاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو اسلام آباد میں غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو قانونی حیثیت دینے کے لیے بنی گالا ریگولرائزیشن ماڈل کے اطلاق کا مشورہ دیا ہے۔
رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہونے والے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ 6 ہزار کنال پر غوری ٹاؤن کی غیر قانونی تعمیر سے قومی خزانے کو 30 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ (غوری ٹائون میں 5 مرلے یا اس سے بھی کم رقبے کے گھر ہیں، جن کو گرانے کے لیے سی ڈی اے حکام بے چین رہتے ہیں)۔ غوری ٹاؤن کی زمین پر بڑے بڑے عالمی اور قومی پراپرٹی ٹائیکونز کی نظر ہے۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے تجویز پیش کی تھی کہ سی ڈی اے یہاں بھی بنی گالا کے کلیے کا اطلاق کرے۔ دوسری جانب سی ڈی اے کے چیئرمین عامر علی احمد نے کہا کہ نجی سوسائٹی کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ لیکن چونکہ یہ کوئی اعلیٰ درجے کی اسکیم نہیں تھی اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ وہاں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی تیاری اور غیر قانونی سوسائٹیز کو ریگولرائز کرنے کے سلسلے میں ایک جامع تجویز پیش کرنے کے لیے ایک کنسلٹنسی فرم کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے کچھ رہنما اصولوں کی بنیاد پر بنی گالا کی غیر مجاز تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد سی ڈی اے نے مشروط طور پر وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ کی منظوری دے دی تھی۔ مشاہد حسین سید نے اس موقع پر کہا کہ بنی گالا ماڈل کے تحت غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو ریگولرائز بنانے کے لیے راتوں رات کام کیا جائے گا، اس دوران سی ڈی اے کے چیئرمین نے کہا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد تین سے چھ ماہ کے اندر ہوگا۔