نجم الحسن عارف:
ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنوں کی طرح دیگر شعبوں کی پروفیشنل باڈیز کے لیے بھی سرکاری گرانٹس دہائیوں سے ان کا مسلمہ حق مانا جاتا ہے لیکن بالعموم وکلا اور صحافیوں سے متعلقہ فورمز کے لیے سرکاری وسائل سے سالانہ بنیادوں پر جاری ہونے والی یہ گرانٹس عام طور پر حکومتی ترجیحات، پالیسیوں، تعصب اور مفادات کے تابع بنا دی جاتی ہیں۔ یہی شکایت پنجاب کی سب سے بڑی بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری خواجہ محسن عباس ایڈووکیٹ سامنے لائے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت، وکلا اور بارز کے طے شدہ حق یعنی مالی گرانٹس کو سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بیانات اور قراردادوں سے مشروط کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی سبب 43 ہزار وکلا ممبران پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی گرانٹ پر غیر معمولی کٹ لگا دیا گیا ہے۔ سال 2018ء میں نواز لیگی حکومت نے جاتے جاتے لاہور ہائی کورٹ بار کو آٹھ کروڑ روپے کی جو گرانٹ اخراجات کے لیے دی تھی۔ سیکریٹری لاہور ہائی کورٹ بار کے بقول موجودہ حکومت نے اسے 40 لاکھ روپے تک کر دیا ہے۔
سیکریٹری لاہور ہائی کورٹ بار خواجہ محسن عباس کے بقول یہ سارے حربے صرف اس لیے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ بار جسٹس فائز عیسیٰ کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے باوجود ایسی قرارداد منظور کرنے پر مجبور ہو جو سپریم کورٹ کے اس فاضل جج کے احتساب کے مطالبے پر مبنی ہو۔ لیکن چوںکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کی طرح لاہور ہائی کورٹ بار حکومت کی اس منشا کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وزارت قانون نے لاہور ہائی کورٹ بار کی سالانہ گرانٹ پرکٹ لگایا ہے۔ اس کا مقصد وکلا کمیونٹی کو سبق سکھانے کے سوا کچھ نہیں۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے خواجہ محسن عباس ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سرکاری گرانٹ لاہور ہائی کورٹ بار سمیت ہر بارکا طے شدہ حق ہے۔ انہی گرانٹس کی بنیاد پر نیشنل باڈیز اپنا روزمرہ کے اخراجات فراہم کرتی ہیں۔ لیکن حکومت اس گرانٹ کی بنیاد پر بار اور بینچ کے درمیان تصادم اور ٹکرائو کی فضا چاہتی ہے۔ ہم اپنے حق سے دستبردار ہوں گے اور نہ ہی اس حق پر دبائو استعمال ہونے دیں گے۔ یہ ہمارا جائز حق ہے۔ بھیک نہیں کہ کوئی بادشاہ سلامت بن کر اس میں جب چاہے کمی کر دے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں براہ راست اور بالواسطہ طور پر مختلف سطحوں سے یہ پیغام بھیجا گیا کہ ہم بطور لاہور ہائی کورٹ بار، سپریم کورٹ کے فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف قرارداد منظور کریں یا بیان جاری کریں۔ اس کے بدلے میں ہماری گرانٹ جاری کردی جائے گی لیکن ہم یہ کرنے کو پہلے تیار تھے اور نہ اب تیار ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد تو حکومت یا وزارت قانون کا اس طرح سوچنا صریحاً انتقامی کارروائی کے مترادف ہے۔ ہم اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔ نہ ہی یہ کسی بار کا حق ہے کہ وہ کرے۔ اب جب ہم نے وزارت قانون اور اس کے پیغام رساں دوستوں کی بات کو توجہ نہیں دی تو وزارت قانون کی طرف سے پیغام ملا ہے کہ 40 لاکھ روپے کا چیک تیار ہے، لے جائیں۔ اس سے بڑی دبائو میں لانے کی اور کیا صورت ہوگی کہ ماضی میں کئی برسوں سے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سالانہ گرانٹ دو اور تین کروڑ روپے سے کم نہیں رہی لیکن یہ موجودہ حکومت ہے، جس نے اسے 40 لاکھ روپے تک کر دیا ہے۔ وجہ صرف اور صرف دبائو میں لانا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بیان دینے یا قرارداد نہ لانے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ بار، سپریم کورٹ بار اور پاکستان بارکونسل ایک ہی موقف پر قائم ہیں کہ عدلیہ کے احترام کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے۔ نہ ہی حکومتی انتقامی پروگرام کا حصہ بنیں گے۔
خواجہ محسن عباس کا کہنا تھا کہ یہ پہلی حکومت ہے، جو ہماری گرانٹ کو اتنا نیچے لے آئی ہے۔ ہماری بار کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں کا بجٹ ہی چالیس لاکھ روپے ہے۔ جب کہ بار کے زیرانتظام چلنے والے اسپتال کے ماہانہ اخراجات 4 لاکھ روپے تک ہیں، جہاں سے وکلا اور بار عملے کو مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح بار کے زیرانتظام سبسڈائزڈ کینیٹن ہیں جن کے اخراجات بھی اسی گرانٹ سے ادا ہوتے ہیں۔ لائبریری بھی اسی کے تحت آتی ہے لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ہمیں معاشی تنگی میں لاکر اپنی مرضی کے کام کرالے، ہم ایسا نہیں کریں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا کسی سے جھگڑا ہے، نہ ہی سیاسی اختلاف۔ ہم صرف اپنے حق کی بات کرتے ہیں۔ حکومت ہمیں ہمارا حق دے۔ وزارت قانون کے ذریعے دبائو میں لانے کی کوشش نہ کرے۔ اپنے حق کے لیے ہمیں بار کے پلیٹ فارم سے احتجاج بھی کرنا پڑا تو کریں گے کہ احتجاج کرنا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے۔