عسکری قیادت سے مجھ سے زیادہ بہتر تعلقات کسی کے نہیں۔فائل فوٹو
عسکری قیادت سے مجھ سے زیادہ بہتر تعلقات کسی کے نہیں۔فائل فوٹو

وزیراعظم کی اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دیدی۔

وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ایوان میں پہنچے تو حکومتی و اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے ڈیسک بجا کراستقبال کیا۔

اسپیکراسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے مالی سال 22-2021 کے بجٹ کی منظوری میں حکومتی و اپوزیشن ارکان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں ںے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت بھی دی۔

انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات جمہوریت کا مستقبل ہے، مجھے فخر ہے کہ میں نے پہلی بار کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر متعارف کرائے، 2013 کے الیکشن میں 4حلقے کھولنے کی درخواست دی، ڈھائی سال بعد چاروں حلقوں میں دھاندلی نکلی، الیکشن میں ریفارمز نہیں کریں گے تو ہرالیکشن میں ایسا ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں اپوزیشن نے پہلے دن ہی کہا کہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے انتخابات میں شفافیت آئے گی، اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم سننے کو تیار ہیں، یہ حکومت اور اپوزیشن کی بات نہیں بلکہ جمہوری مستقبل کا مسئلہ ہے، وقت آگیا ہے کہ الیکشن لڑیں اور کسی کو فکر نہ ہو کہ دھاندلی سے ہرا دیا جائیگا، ایسے الیکشن ہونے چاہئیں جن کے نتائج ہارنے والے بھی تسلیم کریں، اگر ہم نے الیکشن اصلاحات نہ کیں تو آئندہ بھی دھاندلی کے الزامات لگتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 2015 میں جوڈیشل کمیشن نے کہا تھا کہ بے ضابطگیاں پولنگ ختم ہونے کے بعد ہوتی تھیں ، ہم مشاورت سے نتیجے پر آئے کہ الیکٹرانک مشینیں لگائی جائیں ، اس کے بعد جو بھی سوال کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے ، اگر ان کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم سننے کیلئے تیار ہیں ، ملک میں 1970 کے بعد تمام الیکشن متنازع ہوئے ۔

عمران خان کا کہناتھا کہ بجٹ سے پہلے اپنے ویژن پر بات کرنا چاہتاہوں ، بجٹ کو ملک کے ویژن کو ریفلکٹ کرنا چاہیے ، وزارت خزانہ اور ٹیم کو مبارک پیش کرتاہوں کہ میرے ویژن کے مطابق بجٹ بنایا ہے ، 25 سال پہلے پارٹی کو شروع کیا تو میری موٹی ویشن ایک ہی تھی جو کہ نظریہ پاکستان تھا ، اسلامی فلاحی ریاست ، یہ نظریہ مدینہ کی ریاست سے ہمارے آباﺅ اجداد نے لیا ۔ہمارے ملک کے ویژن سے ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پاکستان کا مقصد ختم ہو جاتاہے ، جب پاکستان بنا تھا تو بہت سے ہندو پاکستان میں رہ گئے ، انہوں نے بھی پاکستان کی حمایت کی ، ہمارے علامہ اقبال اور قائداعظم نے جو ویژن دی تھی ، اس کی وجہ سے سارے ہندوستان کے مسلمان بھی متفق تھے کہ پاکستان بننا چاہیے ۔

عمران خان نے کہا کہ  جب ہماری حکومت آئی تو سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تھا، معیشت کو  بہتر کرنے کیلئے ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑے، جب ملک مقروض ہو جائے تو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں، اس مشکل وقت میں سعودی عرب اور چین نے ہماری مدد کی اور ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچایا، ہم نے پوری کوشش کی کہ آئی ایم ایف کے پا س جانا نہ پڑے، مگر دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے اس کے پاس جانا پڑا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اسلامی فلاحی ریاست کا نظریہ پاکستان نے دیا ہے، ہمارے اکابرین نے یہ نظریہ ریاست مدینہ سے لیا تھا،  ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اکابرین کے اصولوں پر واپس جائے، کیونکہ اگر ہم اس نظریہ سے پیچھے ہٹ جائیں تو مقصد ختم ہو جائے گا، جب حضوراکرمؐ مدینہ پہنچے تو انہوں نے ریاست مدینہ میں جو اصول طے کئے اس کی گواہ دنیا کی تاریخ ہے، اس ریاست کے قیام کے 13 سے 14 سال کے اندر قیصر و کسریٰ نے اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے، ہم اس وقت علم و سائنس میں آگے تھے مگر بعد میں یورپ نے انہیں اپنالیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنی پارٹی بنائی تو یہ تین اصول رکھے کہ انصاف ، انسانیت اور خوداری ، تین اصولوں کو بجٹ میں نظر آنا چاہیے ، میں اپنی معاشی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتاہوں ، جب سے ہماری حکومت آئی جس جس نے ہماری معاشی ٹیم میں شرکت کی وہ سارے مبارک اور خراج تحسین کے مستحق ہیں ،جب ہماری حکومت آئی تو سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ تھا ، ملک میں ڈالرز کتنے آ رہے ہیں اور ملک سے باہر کتنے ڈالر زجارہے ہیں ، یہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ہے ، ڈالرز کی کمی تھی جس سے ہماری کرنسی خطرے میں تھی ، ہم سب نئے تھے ، ٹیم نئی تھی ، تجربہ نہیں تھا ، اس لیے اپنی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتاہوں کہ ہم نے معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے بڑے قدم اٹھائے ۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک گھر مقروض ہو جاتا ہے ، آمدنی اور خرچے میں خسار ہ ہو جاتاہے ، کرائے دار پیسے مانگنے آ رہاہے ، تو وہ گھر دو چیزیں کرتا ہے ، وہ اپنے خرچے کم کرتاہے اور آمدنی کم کرتاہے ، جب خرچے کم کرتاہے تو تکلیف ہوتی ہے ، بچہ اگر اچھے سکول میں جارہاہے تو اسے کم اچھے سکول میں ڈالنا پڑتاہے ، گاڑی ہے تو موٹر سائیکل پر آنا پڑتا ہے ، جب تک اس کی آمدنی اوپر نہیں آتی ۔ مشکل فیصلے کرنے پڑے جس سے عوام مشکل سے گزری ، جب ملک اس مشکل میں پڑ جائے تو اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ، ترکی میں جب رجب طیب اردگان آئے تو انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ، انہیں بھی مشکل وقت سے گزرنا پڑا، ہماری معاشی ٹیم نے جس طرح فیصلے کیے ، چیلنجز لیے ، جس طرح ان چیلنجز سے نکلے ، ایک معاشی چیلنج تھا ، باہر دنیا سے پیسے اکھٹے کرنے کی کوشش کی ، ان ملکوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہماری مدد کی ، چین ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات نے ہماری مدد کی ۔انہوں نے ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کرنسی کی قدر گرنے سے مہنگائی بڑھتی ہے ، ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے ، ہم نے پہلے کوشش کی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں اورکوئی حل نکالیں ،لیکن آخر میں ہمیں جانا پڑا، آئی ایم ایف کی شرائط مشکل تھیں ،اس سے عوام کو تکلیف تھی ، اس چیلنج سے نکل ہی رہے تھے کہ کورونا آ گیا ، کورونا کا ساری دنیا کی معیشت پر اثر ہوا، ایک معیشت جو پہلے مسائل میں تھی اس پر کورونا آ گیا ۔ اسد عمر اوران کی ٹیم کو بھی خراج تحسین پیش کرتاہوں ، کورونا سے نمٹنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہم سارے پاکستانی وہ خوش قسمت قوم ہیں، ایران ، بھارت ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا میں جو صورتحال ہے ، اس کے مقابلے میں اللہ نے ہمیں بچا لیا ہے ، یہ میرا ایمان ہے کہ ہم اس لیے بھی بچے کہ ہم نے جلدی فیصلہ کیا کہ ہم مکمل لاک ڈاﺅن نہیں کریں گے ، ساری دنیا کا تجربہ ہے کہ لاک ڈاﺅن سے غریب پس جاتاہے ، امریکہ میں بھی کھانے کیلئے قطاریںلگی ہوئی تھیں، ہر جگہ دنیا میں غربت بڑھی ہے جہاں لاک ڈاﺅن لگا ہے ،اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ لاک ڈاﺅن لگایا جائے لیکن ہم نے نہیں لگایا ہم نے غریبوں کو بچایا،احساس پروگرام سے ان کی مدد کی۔

عمران خان نے بتایا کہ جب کوئی فرد بیمار ہوتا ہے تو قرض کی وجہ سے سارا گھر غربت میں چلا جاتا ہے، پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے تمام عوام کو ہم ہیلتھ انشورنس دیں گے، ترقی یافتہ ملکوں میں ہیلتھ پریمیئم دینا پڑتا ہے مگر ہم مفت دے رہے ہیں، ہیلتھ کارڈ اب کسی بھی اسپتال میں استعمال ہوسکتا ہے، حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اسپتال بنائے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ محکمہ اوقاف اور متروکہ املاک کی سستی زمینیں اسپتالز کے لئے دیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اب فلاحی ریاست کی جانب جارہا ہے، جب وزیراعظم پیسہ  چوری کرکے باہر بھیجتا ہے تو ملک تباہی کی طرف جاتا ہے جبکہ وہ معاشرہ اوپر جاتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، ملک پٹواری کی نہیں وزیراعظم اور وزرا کی کرپشن سے تباہ ہوتا ہے، گزشتہ روز سندھ کے ایم این اے کو  نیب پکڑنے گیا تو لوگوں نے نیب کے اہلکاروں کو مارا، پہلی بار نیب بڑے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے اس لیے شور ہورہا ہے کہ اب نیب برا ہوگیا،  دس سال یہ حکومت میں رہے مگر کیوں قانون تبدیل نہیں کیا۔

عمران خان نے کہا کہ لاہور میں سرکاری زمین سے قبضہ چھڑایا گیا تو کہا گیا ظلم ہورہا ہے، ماضی میں  جب ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تھا تو سب خاموش تھے، ایک مہذب ملک اس طرح نہیں چل سکتا جب تک بڑے کرپٹ لوگوں کو نہیں پکڑا جاتا، قانون کی حکمرانی ایک معاشرے کی بنیاد ہے، آج سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ سب آزاد ہے، ہم کسی جج کوفون نہیں کرتے، طاقتور لوگوں کو جب تک قانون کے نیچے نہیں لائیں گے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لا الہ الااللہ غیرت دیتا ہے اور کوئی ملک غیرت کے بغیر نہیں اٹھتا، جو اللہ کے سامنے جھکتا ہے وہ کسی سپر پاور کے سامنے نہیں جھکے گا، ہم نے امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا فیصلہ کیا جس سے زندگی میں سب سے زیادہ ذلت محسوس ہوئی، امریکا کی جنگ میں شامل ہوکر بہت بڑی حماقت کی، امریکا نے جو کہا وہ ہم کرتےرہے، میں نے کہا ہم دوسروں کی جنگ کا حصہ کیوں بنیں، ہم اپنے لوگوں کی جانوں کی قربانیاں دوسرے ملک کے لیے کیوں دیں، جب کہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں تو مجھے طالبان خان کہا گیا، 30 سال سے لندن میں ہمارا دہشت گرد بیٹھا ہے، اسے مارنے کے لیے کیا برطانیہ ہمیں اجازت دے گا کہ پاکستان لندن میں ڈرون حملہ کرے؟ کبھی نہیں. تو پھر ہم کیوں اجازت دیتے رہے، دنیا نے نہیں ہم نے خود اپنے آپ کو ذلیل کیا، اس سے ہم نے ایک سبق سیکھا ہے کہ کبھی اس قوم نے کسی کے لیے کسی خوف سے اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کرنا۔