محمد قاسم:
طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں اورافغان صدر کے ناکام دورہ امریکہ کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی اور کابینہ اراکین کے اہلخانہ دبئی اور فرانس منتقل ہونے لگے۔ جبکہ فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی اپنے اہل و عیال کو امریکہ منتقل کرنا شروع کر دیا۔ کابل پر طالبان کے حملے کی صورت میں افغان صدر، وزرا اور دیگر اعلیٰ حکام نے بھی افغانستان چھوڑنے کی تیاری مکمل کرلی ۔
متعبر ذرائع کے مطابق طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد افغان صدر نے جنرل بسم اللہ کو وزیر دفاع اور جنرل عبدالستار کو وزیر داخلہ بنایا ہے۔ تاکہ وہ سیکیورٹی اداروں کو طالبان کے خلاف منظم کریں اور ان کو حوصلہ دیں۔ لیکن طالبان نے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کرلی ہے۔ اب افغان فوج کے اہلکاروں کو گرفتار یا ان کے ہتھیار ڈالنے پر ماضی کے برعکس ان سے اسلحہ نہیں لیا جاتا۔ بلکہ انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ چاہیں تو طالبان کے ساتھ مل کر افغان فوج کے خلاف لڑیں یا پھر گھروں کو واپس چلے جائیں۔
ذرائع کے مطابق گھر واپس جانے والے ہر فوجی کو طالبان ایک دستخط شدہ رسید دیتے ہیں کہ انہیں دوبارہ فوج میں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ افغان صدر نے گزشتہ جمعہ کو امریکا کا دورہ کیا۔ جہاں انہیں امریکی حکام نے بتایا کہ اگر افغان حکومت اور ان کے فوجی دستے طالبان کے خلاف مزاحمت کرنا چاہتے ہیں تو وہ مزاحمت کر سکتے ہیں۔ لیکن دوحہ معاہدے کے تحت امریکی افواج نہ تو انہیں اسلحہ دے گی اور نہ ہی مداخلت کرے گی۔ ذرائع کے مطابق امریکہ سے ناکام لوٹنے کے بعد افغان صدر کے بیٹے طارق غنی اور اہلیہ لورہ غنی نے اپنا سامان دبئی منتقل کر دیا ہے۔ جس کے بعد کابینہ کی اکثریت نے بھی اپنے اہل خانہ کو فرانس اور دبئی منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے وزرا نے اپنے اہلخانہ کو فرانس منتقل کیا ہے۔ جبکہ دیگر کابینہ ارکان نے خاندان کو دبئی منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ افغان فوج کے اعلیٰ عہدیدار اپنے اہل و عیال کو واشنگٹن منتقل کر رہے ہیں۔ امراللہ صالح کے بیٹے عباس صالح نے اپنے اہلخانہ کو امریکا منتقل کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹی وی اینکرز اور اداکاروں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نجیبہ فیض نامی ٹی وی اینکر اور اداکارہ اسلام آباد منتقل ہو گئی ہیں اور انہوں نے پشتو ون پر پروگرام بھی شروع کر دیا ہے۔ تاجر اور سرمایہ کار بھی پاکستان آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں مختلف علاقوں میں مکانات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری جانب جرمنی نے افغانستان سے اپنے تمام فوجی نکال لیے ہیں۔ افغانستان سے جرمن فوجیوں کے مکمل انخلا کا اعلان وزیر دفاع انا گریٹ کریمپ کرنباور کے ایک ٹویٹر پیغام میں کیا گیا ہے۔
جرمن فورسز جنوری 2002ء میں افغانستان پہنچی تھیں اور ان کو افغانستان میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جرمنی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے 59 فوجی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ افغان طالبان نے جرمن فوجیوں کے انخلا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ملک کی خود مختاری اور آزادی کو افغانوں کا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں جارحیت کا خاتمہ افغانستان اور خطے کیلیے مفید ہے۔
ادھر افغان طالبان نے اپنے کمانڈروں اور جنگجوئوں کی لاشیں جلانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ بلکہ بین الاقوامی تنظیموں سے لاشوں کی بے حرمتی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے جاری ایک بیا ن میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز صوبہ غزنی کے ضلع گیلان کے صدر مقام جنڈا شہر میں افغان فورسز کی جانب سے طالبان شہدا کی لاشوں کو آگ لگانے کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔
کچھ دن پہلے قندھار کے پولیس سربراہ، نیز صوبہ سمنگان میں قومی سلامتی کے ڈائریکٹر نے اپنے سرکاری دفاتر میں اپنے جنگجوؤں کو طالبان قیدیوں کو مارنے کا حکم دیا تھا۔ کبھی کبھی میدان جنگ میں عام جنگجو کی جانب سے ایسے المناک واقعات رونما ہوتے ہیں، جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن جب صوبائی پولیس چیف یا قومی سلامتی کے صوبائی ڈائریکٹر جیسے اعلیٰ حکام سرکاری وردی میں اپنے سرکاری دفاتر میں اپنے جنگجوؤں کو انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کی ترغیب دیتے ہیں تو بلا شبہ یہ حکومتی سطح پر انسانیت سوز کارروائیوں کیلئے ترغیب دینا ہے۔
کابل انتظامیہ کے اعلیٰ سرکاری حکام اس طرح کے احکامات سے طالبان کی جانب سے مسلسل اضلاع کو فتح کرنے کا سلسلہ روکنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خاص طور پر یوناما کے حکام ایسے ظالمانہ جنگی جرائم پر خاموش کیوں ہیں۔ اس طرح کے جنگی جرائم جن کے مجرم اپنے سرکاری فرائض کے دوران مسلسل مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان جنگی جرائم کا انسانی حقوق کے تحفظ کیلیے قائم بین الاقوامی کمیٹی نوٹس لے۔ انسانی حقوق کمیشن بھی اس حوالے سے ایکشن لیں۔
طالبان نے اب تک ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کو سو سے زیادہ اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کے موقع پر حراست میں لیا لیکن ان کے ساتھ انسانی ہمدردی کا سلوک کیا گیا۔ انہیں بھائی قرار دیا اور مختلف تحائف دے کر گھر بھیجا گیا۔ طالبان کے اس عمل نے افغان فوجیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ افغان طالبان کی قیادت اور کمانڈرزاپنے مجاہدین کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں کے ساتھ نیک سلوک کریں اورکسی کو بھی شرعی ہدایات کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہ دیں۔