امت رپورٹ:
افغانستان کی موجودہ صورتحال میں اگلے دو سے تین ماہ فیصلہ کن قرار دیے جا رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان مجاہدین کی عسکری قیادت کی حکمت عملی ہے کہ موسم سرما اور برف باری شروع ہونے سے پہلے کابل کا کنٹرول حاصل کرلیا جائے۔ پچھلے چند روز سے صوبائی دارالحکومتوں پر تیزی کے ساتھ قبضے، اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کے روز طالبان مجاہدین نے ساتویں صوبائی دارالحکومت فراہ پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اور دیگر شہروں کی طرف پیش قدمی جاری تھی۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ پہلے طالبان قیادت نے یہ طے کیا تھا کہ اکتیس اگست کو افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے مکمل انخلا کے بعد صوبائی دارالحکومتوں کا رخ کیا جائے گا۔ تاہم بعد میں یہ اسٹرٹیجی تبدیل کر دی گئی اور اندازہ لگایا گیا کہ اگر اکتیس اگست کے بعد صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے تو پھر تاخیر ہو جائے گی۔ اس دوران موسم سرما اور برفباری کا سیزن عسکری کارروائیوں میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لہٰذا اکتیس اگست تک انتظار کرنے کی پالیسی ترک کر کے صوبائی دارالحکومتوں پر فوری کنٹرول کی اسٹرٹیجی اپنائی گئی۔
یاد رہے کہ قبل ازیں امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن گیارہ ستمبر رکھی تھی۔ تاہم پھر اسے تبدیل کرکے اکتیس اگست کر دیا تھا۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ اگست کے بعد ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے مہینے طالبان اور کابل حکومت دونوں کے لئے اہم ترین ہیں۔ اصل لڑائی ان تین ماہ کے دوران ہونی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد افغانستان میں موسم سرما کا آغاز ہو جائے گا اور خاص طور پر دسمبر، جنوری اور فروری کے اوائل تک برفباری بھی ہوتی ہے۔ اس سیناریو کو ذہن میں رکھ کر افغان نیشنل آرمی پورا زور لگائے گی کہ کسی طرح موسم سرما شروع ہونے تک کابل کو طالبان کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا جائے۔ جبکہ دوسری جانب طالبان کی کوشش ہے کہ موسم سرما سے پہلے ہی کابل پر قبضہ یا کم از کم اس کا محاصرہ کرلیا جائے۔ اگر موسم سرما سے پہلے طالبان مجاہدین کابل کے محاصرے یا قبضے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر سردی اور برفباری کی وجہ سے تیز ترین حملوں کا سلسلہ برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ اور یوں کم از کم تین ماہ تک لڑائی میں وقفہ آسکتا ہے۔ اس وقفے کا سارا فائدہ کابل حکومت کو ملے گا کہ اس دورانیہ میں اسے سانس لینے کا اور افغان نیشنل آرمی کو ری گروپ ہونے کا موقع مل جائے گا۔ جبکہ طالبان مجاہدین جو اس وقت نہایت تیزی کے ساتھ فتوحات حاصل کر رہے ہیں۔ ان کی کارروائیوں کا مومنٹم ٹوٹ جائے گا۔ آصف ہارون کے بقول اسٹرٹیجک کارروائیوں میں سب سے اہم چیز مومنٹم یعنی حملوں کی رفتار برقرار رکھنا ہوتی ہے۔ تاکہ حریف کو قدم جمانے کا موقع نہ مل سکے۔ اس چیز کو پیش نظر رکھ کر طالبان کی عسکری قیادت نے اکتیس اگست کا انتظار کرنے کے بجائے صوبائی دارالحکومتوں پر تیزی کے ساتھ قبضوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اور اس میں انہیں حیران کن فتوحات مل رہی ہیں۔
آصف ہارون کا کہنا ہے کہ طالبان کی اسٹرٹیجک حکمت عملی یہ ہے کہ اکتوبر کے وسط تک تمام اہم صوبائی دارالحکومتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کابل کا مکمل محاصرہ کرلیا جائے۔ تاکہ نومبر کے اوائل تک کابل حکومت کو سرنڈر پر مجبور کیا جا سکے۔ اگر محاصرے کے باوجود مقصد حاصل نہ کیا جا سکا تو پھر کابل پر براہ راست حملے کا آپشن بھی خارج از امکان نہیں۔ دیکھنا ہے کہ موسم سرما سے پہلے کابل پر کنٹرول کی جو اسٹرٹیجی طالبان نے اختیار کی ہے۔ اس میں کتنی کامیابی ملتی ہے۔ بصورت دیگر یہ معاملہ اگلے برس تک جا سکتا ہے۔
قندھار میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے والے ایک رپورٹر اسحاق زدران کا کہنا ہے کہ افغان نیشنل آرمی اس وقت سخت نفسیاتی دبائو میں ہے۔ کابل کی سیکورٹی فورسز کا مورال اس قدر گر چکا ہے کہ وہ بیشتر علاقے بغیر لڑے طالبان کے حوالے کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے کہ افغان نیشنل آرمی موسم سرما تک طالبان کو کابل پر دستک دینے سے روک سکے۔ ادھر افغان نیشنل آرمی کی نااہلی نے پنٹاگون کو بھی چیخنے پر مجبور کر دیا۔ پنٹاگون نے افغان نیشنل آرمی کے پست حوصلوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ منگل کے روز پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ طالبان کے مقابلے میں افغان نیشنل آرمی زیادہ تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ کابل حکومت کے پاس جدید بری اور فضائیہہے اور اسے امریکہ کی مدد حاصل تھی۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان، کابل انتظامیہ کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ جان کربی کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان فورسز کو عسکری اور سیاسی طور پر بہتر قیادت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔