بھارت نے طالبان دشمنوں کی میزبانی شروع کردی ہے۔ مجاہدین مخلاف جنگجو ملیشیا کمانڈرز، سابق کٹھ پتلی حکومت کے افسران، امریکا کیلئے کام کرنے والے مترجمین، اراکین پارلیمان اور بد عنوان سیاست دانوں کیلیے بھارتی ورزات داخلہ نے اسپیشل ڈیجیٹل ویزا جاری کردیئے ہیں۔ تاکہ کسی بھی کمرشل فلائٹس کی مدد سے بھارت کے دوست نئی دہلی پہنچ جائیں۔ بھارتی خاتون صحافی گیتا موہن نے انکشاف کیا ہے کہ اب تک طالبان کے خوف سے فرار ہونے والے 100سے زائد سابق ارکان پارلیمنٹ، سیاسی عمائدین اور سرکاری و عسکری حکام نئی دہلی پہنچ چکے ہیں، جن کو بھارتی حکام کی جانب سے کھلے بازئوں سے خوش آمدید کہا گیا ہے۔
دہلی میں مقیم صحافی امریش گپتا نے تصدیق کی ہے کہ اسپن بولدک کا بھارت نواز جنگجو ملیشیا کمانڈر تادین خان ایک خصوصی فلائٹ AI243 سے دہلی ایئر پورٹ پہنچا جس کو بھارتی انٹیلی جنس نے ریسیو کیا ہے۔ امریش گپتا نے لکھا ہے کہ تادین خان کے ساتھ قندھار اور اسپن بولدک میں سرگرم 30 بھارتی ایجنٹ بھی اسی طیارے میں دہلی پہنچے ہیں جو جنوبی افغانستان میں بلوچ لبریشن فرنٹ اور علیحدگی پسند تنظیموں کے ہینڈلرز تھے۔ طالبان مجاہدین کی فتوحات کو دیکھتے ہوئے تادین خان ازبکستان بھاگ گیا تھا۔ لیکن اب وہ ازبکستان سے دہلی پہنچ چکا ہے۔
گیتا موہن نے لکھا ہے کہ کابل کے سقوط اور طالبان کی امارات اسلامیہ حکومت کے قیام کے بعد کم و بیش پانچ ہزار افغان سیاسی و عسکری رہنما بھارت آنے والے ہیں، جن کو اکاموڈیٹ کرنے کیلئے انڈین وزارت داخلہ و خارجہ حکام کوشاں ہیں۔ بھارتی حکام نے اگرچہ عطائے نور، عبدالرشیدد وستم سمیت دیگر جنگجو کمانڈرز کے بھارت پہنچنے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن غیر جانبدار افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ اب نئی دہلی کی کوشش ہوگی کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلیے طالبان مخالف افغان رہنمائوں کو اپنی سر زمین پر بٹھا کر استعمال کرے۔
’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے مطابق بھارت نے کم و بیش پچاس ہزار طالبان مخالف افغان افراد کو دہلی اور گرد و نواح میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تک دہلی پہنچنے والے افغان سیاست دانوں اور اراکین پارلیمنٹ میں وحید اللہ کلیم زئی، عبد العزیز حکیمی، عبد القادر زازئی، سینیٹر مالم لالہ گل، حامد کرزئی کے کزن و سابق رکن پارلیمنٹ جمیل کرزئی، شکریہ عیسیٰ خیل، سینیٹر محمد خان، سابق وزیر خزانہ عبد الہادی ارغندی وال، سابق نائب صدر یونس قانونی کے برادر خورد محمد شریف شریفی، رکن پارلیمنٹ مریم سلیمان خیل اور قیس مواقف نمایاں ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ مزارشریف، ہرات، بلخ، جوزجان سمیت شمالی علاقہ جات سے ہزاروں غیر پشتون عمائدین کو بھارت بلوانے کیلیے کام شروع کردیا گیا ہے۔
’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے واویلا کیا ہے کہ افغانستان پر طالبان کا نہیں بلکہ پاکستانی سیکرٹ سروس کا راج قائم ہوچکا ہے۔ اس لئے بھارت اس وقت ہم خیال اور دوست افغانوں کی مدد کرے گا، جنہوں نے ماضی میں افغانستان میں بھارتی حکام اور سفارت کاروں کی مدد کی تھی۔ واضح رہے کہ افغانستان کے موجودہ منظر نامہ اور امریکی، برطانوی اور بھارتی شکست پر بھارتی وزارت خارجہ کو چپ لگ گئی ہے۔ لیکن امریکی و یورپی میڈیا میں ایک دوسرے پر الزام کا کھیل شروع ہوچکا ہے۔ امریکی ری پبلکن سینیٹرز اور کانگریس ممبرز سمیت سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن پر کھل کر الزامات عائد کیے ہیں اور ان سے استعفے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ادھر جو بائیڈن کی ٹیم بھگوڑے صدر غنی اور ملیشیا کمانڈرز کو الزام دے رہی ہے۔ جبکہ ملیشیا کمانڈرز، اشرف غنی کو بدمعاش قرار دے رہے ہیں۔ پورے منظر نامہ میں دلچسپ حالت امریکی انٹیلی جنس کی دکھائی دیتی ہے۔ امریکی جریدے ’’ملٹری ٹائمز‘‘ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے افغانستان میں متعدد موقع پر اپنے جائزوں میں طالبان کی طاقت، حوصلے اور مستقبل میں کابل کی حکومت کوگرا ڈالنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن صدر امریکا سمیت اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ان رپورٹس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
’’ملٹری ٹائمز‘‘ کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنے عسکری عزم اور بہترین ملٹری پلاننگ سے امریکی انخلا کے بعد کے منظر نامہ کو ایسا پر کیا کہ کابل میں واقع امریکی سفارت خانہ سمیت یورپی سفارتی مشنز کی سیکورٹی کیلئے طالبان کو اعلیٰ سطحی مفاہمانہ پیغام بھیجنا پڑا۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ ہم نے افغان افواج کوٹریننگ اور اسلحہ دیا۔ لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھاکہ وہ طالبان کے مقابلہ میں اس قدر بودے ثابت ہوں گے۔ سابق امریکی سفیر نیومین نے
’’این پی آر ریڈیو‘‘ کو بتایا ہے کہ ہم نے افغان ایئر فورس بنائی۔ لیکن اس کی دیکھ بھال کا انحصار افغانوں کے بجائے امریکی کنٹریکٹرز پر تھا۔ جب ہم نے ان کنٹریکٹرز کو واپس بلوالیا تو پیچھے کچھ بھی باقی نہ رہا۔ امریکا کے افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹر جنرل جان سوپکو کے مطابق امریکا نے افغان فوجیوں کی صلاحیتوں کا اول تو اندازہ ہی نہیں لگایا اور جب لگایا توغلط اندازہ لگایا۔
جان سوپکو کا کہنا ہے کہ جب بھی ان کا ادارہ افغان افواج کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے کیلئے کوئی ٹیسٹ لیتا تو ہماری ہی افواج کے افسران ایسا طریقہ کار اپناتے کہ نا اہل افغان فوجی آسانی سے پاس ہوجاتے۔ لیکن جب ہم نے اپنا طریقہ کار بدلا تو انہوں نے امتحانی نتائج کو خفیہ کر دیا۔ تاکہ کوئی نہ جان سکے کہ افغان افواج کتنی خراب اور نا قابل اعتبار ہے۔