مصری ماہرین نے ایک ایسی قدیم وہیل کا سراغ لگایا ہے، جو خشکی پر بھی شکار کرتی تھی۔ ’’اینوبس‘‘ نامی اس وہیل کی خاصیت یہ تھی کہ اس کی دریائی گھوڑے کی طرح 4 ٹانگیں تھیں اور یہ زمین اچھی خاصی رفتار سے دوڑ سکتی تھی۔ جس نسل سے اس حیرت انگیز سمندری مخلوق کا تعلق بتایا گیا ہے وہ 20 فٹ تک لمبی اور وزن ایک ٹن تک ہوسکتا تھا۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’وادی الحیتان‘‘ کے صحرائی علاقے جہاں سے اینوبس کا ڈھانچہ دریافت ہوا وہاں لاکھوں برس سمندر تھا۔ سائنسی اورآثار قدیمہ کے ماہرین کیلیے یہ دریافت انتہائی حیران کن ہے اوران کا کہنا ہے کہ سمندروں میں پائی جانے والی یہ چوپایہ وہیل نا صرف سمندروں بلکہ موقع ملنے پر خشکی پر بھی راج کرتی تھی اور انتہائی برق رفتاری کے ساتھ خشکی پر نکل کر اپنی چار ٹانگوں سے دوڑ کر شکار کو پکڑ لیتی تھی، اس وہیل کی خاصیت اس وقت بھی ایک ممالیہ کی تھی جو بچے دیتی تھی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر ان کی پرورش کرتی تھی۔
عالمی جریدے ’’کنزرویشن‘‘ کے مطابق چار کروڑ 30 لاکھ سال پرانی وہیل کی جو ہڈیاں ملی ہیں وہ ایک جوان وہیل کی ہیں۔ اس چوپایہ وہیل کا دلچسپ نام قدیم فرعونی دور کے ایک دیوتا ’’فائیومسی ٹیس اینوبس‘‘ کے نام پر رکھا گیا۔ واضح رہے کہ اینوبس قدیم مصر میں ’’موت کا دیوتا‘‘ کہلاتا تھا اسی لئے اس خطرناک اور تیز چوپایہ وہیل کا نام موت کے دیوتا کی مناسبت سے یہ نام رکھا گیا۔ چوپایہ وہیل کا پایا جانے والایہ قدیم فوسل درمیانی ایوسین عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وہیل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک نئی قسم کی وہیل دریافت ہوئی ہے جو اولین وہیل/ پروٹوسیٹی ڈائی کی نوع سے تعلق رکھتی ہے، لیکن عہد جدید میں اس قدیم عہد کی تمام وہیل بشمول چوپایہ وہیل قصہ پارینہ بن چکی ہیں، جو خشکی سے سمندر جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔
اینوبس قسم کی اس وہیل کی ہڈیاں پہلی مرتبہ مصر کے مغربی صحرا میں رواں برس ماہ اپریل میں ملی تھیں۔ اس کی ہڈیوں اور ڈھانچے کا بغور مطالعہ کرنے والی ٹیموں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس چوپایہ وہیل کی کھوپڑی گیدڑ کے سر کی طرح تھی۔ ایکسپرٹس کے مطابق ایسی قدیم چوپایہ وہیل کا کام از کم قد یا لمبائی دس سے بیس فٹ اور وزن ایک ٹن بھی ہوسکتا تھا، لیکن مصر کے صحرا سے ملنے وال چوپایہ وہیل کے ڈھانچہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وہیل کا وزن تقریباً 600 کلوگرام تھا اور لمبائی دس فٹ سے کچھ زیادہ ہے۔ معروف سائنسی جریدے’’پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جس مقام سے چوپایہ وہیل کا ڈھانچا ملا ہے وہ ایک صحرا ہے لیکن لاکھوں برس پہلے یہاں سمندر بھی ہوا کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس صحرا میں صدیوں پرانی سمندری حیات کے بہت زیادہ فوسلز یا رکاز پائے جاتے ہیں۔ مذکورہ ڈھانچہ صحرا میں واقع ایک کھائی سے ملا ہے اور اس کا فارنسک تجزیہ مصر کی معروف یونیورسٹی جامعہ منصورہ کے ماہرین نے کیا ہے۔
جامعہ منصورہ سے منسلک رکازی ماہر عبداللہ گوہر کا کہنا ہے کہ اینوبس قسم کی یہ چوپایہ وہیل سمندری حیات کی اقسام میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور اس ڈھانچے کی دریافت مصر اور افریقہ میں زمانہ قدیم کے جانوروں پر ہونے والی تحقیق کے حوالہ سے بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ چار ٹانگوں والی کسی قدیم وہیل کے ڈھانچے کی دریافت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، لیکن ماہرین کے مطابق چوپایہ اور ممالیہ کی تمام خصوصیات رکھنے والی وہیل کی یہ قسم اب تک افریقی خطہ میں دریافت ہونے والی قدیم ترین وہیلز میں سے ایک ہے، جو بیک وقت خشکی اور پانی میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔