چین میں اٹھارہ سال سے کم عمر تمام بچوں پرآن لائن گیمز کھیلنے پر پابندی عائد کردی گئی صرف تین دن جمعہ، ہفتہ اوراتوارکو اسکول اور تعلیم کی ذمے داریوں سے فراغت کے بعد بچے ایک گھنٹوں کیلیے آن لائن گیمز کھیل سکیں گے۔
ان پابندیوں کو غیر جانبدار ایکسپرٹس نے سراہتے ہوئے کہا کہ نت نئے آن لائن گیمز نے کم سن بچوں کو موبائل/ کمپیوٹرز اسکرینز سے اس بری طرح چپکایا ہے کہ ان کی صحت اور تعلیم کا تیا پانچا ہوچکا ہے۔ چین میں آڈیو، ویڈیو اینڈ ڈیجیٹل پبلشنگ ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس برس کی پہلی سہ ماہی میں ویڈیو گیمز کی صنعت سے کمپنیوں کو ابتدائی چھ ماہ میں قریباً بیس ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے۔
حکام نے چین میں آن لائن ویڈیو گیمز کو روحانی افیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچے اس کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کا ان کی صحت و معاشرت اور عمومی برتائو پر بھی انتہائی منفی اثر پڑا ہے۔ بچوںکی بینائی ختم ہو رہی ہے۔ ان کی قوت ارادی میں فرق آرہا ہے۔ وہ جرائم میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی و معاشرتی ذمہ داریوں سے انحراف برت رہے ہیں۔ جس سے والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ژنہوا‘ نے تصدیق کی ہے کہ ملک بھر میں اٹھارہ سال سے کم عمر نوجوان گیمرز کو ہفتے میں صرف تین دن جمعہ ہفتہ اور اتوار کو شب آٹھ سے نو بجے کے درمیان آن لائن گیمز کھیلنے کی اجازت ہوگی۔ غیر ذمے دارانہ رویہ اور نئے قوانین کی خلاف ورزیوں پر نہ صرف نوجوانوں کو سزا دی جائے گی۔ بلکہ ان کے سرپرستوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے گا۔ ہر آن لائن گیمر کو گیمز ڈائون لوڈ اور کھیلنے سے قبل اپنی عمر بتانا ہوگی۔ عمر کی تصدیق بھی کی جائے گی اورکسی بھی غلط بیانی پر قانون حرکت میں آئے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اسکول کی چھٹیوں میں بچوں کو کچھ زیادہ مدت کیلئے آن لائن گیمز سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دیدی جائے گی۔ جس میں یومیہ وقت کی حد ساٹھ منٹ رہے گی۔ یعنی ہر چینی کم سن بچہ روزانہ ایک گھنٹے گیمز کھیل سکے گا۔ لیکن صرف اور صرف چھٹیوں میں۔ چین کی نیشنل پریس اینڈ پبلی کیشن ایڈمنسٹریشن نے اپنے اعلامیہ میں واضح کیا ہے کہ آن لائن گیمنگ کی لت تعلیم، صحت اور چینی سماج میں روز مرہ زندگی کو متاثر کر رہی ہے اور کئی والدین اس ضمن میں شدید کوفت کا شکار ہیں۔ چینی پولیس اور سماجی سدھار کے اداروں نے تصدیق کی ہے کہ ان کو بچوں کی گیمز کی لت سے پریشان کروڑوں والدین نے شکایات درج کروائی ہیں کہ ان کا بچہ یا بچی گھریلو ذمہ داریوں، والدین کے احترام، تعلیم سمیت صحت کے سنگین مسائل کا شکار ہے اور اس کی دس سے بارہ گھنٹوں تک آن لائن گیمز میں مشغولیت نے اسے ڈپریشن کا شکار کردیا ہے۔
واضح رہے کہ سابقہ ہدایات کے مطابق 18 برس تک کے بچوں کو ایک دن میں 90 منٹ تک ویڈیو گیمز کھیلنے کی اجازت تھی۔ چین کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی ویڈیو اور آن لائن گیمز سے نوجوانوں کی بینائی متاثر ہونے اور غلط عادات پڑنے اور دبائو ڈالنے پر گھر سے بھاگ جانے جیسے منفی اثرات کے حوالے سے کافی فکر مند رہی ہے، جس کا حالیہ قوانین کی مدد سے سد باب کیا گیا ہے۔
دوسری جانب چین کی ان نئی ہدایات کو گیمنگ انڈسٹری کیلئے ایک بڑا دھچکا تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ چینی حکومت اور والدین ان نئی پابندیوں کو نئی نسل کو تباہی سے بچانے کا عمل قرار دیتے ہیں۔ لیکن ناقد امریکی و یورپی ناقدین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ چین میں آن لائن گیمز پر پابندیوں کے نئے اقدامات معاشرے اور نوجوانوں پر زیادہ سے زیادہ حکومتی گرفت کیلئے بیجنگ کا حربہ ہے۔ یاد رہے کہ چین میں آن لائن گیمز کھیلنے کیلیے اپنی آئی ڈی سے خود کو بطور ڈیجیٹل صارف رجسٹرڈ کروانا ضروری ہوتا ہے۔ چ
چینی حکام کے مطابق گیمز کیلیے ڈیجیٹل آن لائن رجسٹریشن اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ بچے اپنی عمر کے بارے میں جھوٹ کا سہارا نہ لے سکیں۔ اس رجسٹریشن میں صارف کے جھوٹ کو پکڑنے کیلئے اپنی رجسٹریشن، شناخت اور بسا اوقات شناختی کارڈ کی کاپی سمیت لوکیشن ظاہر کرنی پڑتی ہے۔ نئی پابندیوں میں یہ بات بھی اہم ہے کہ آن لائن گیمز پرووائیڈر کمپنیوں پر کم عمر صارفین کو ایسی خدمات مقررہ وقت سے زیادہ مدت یا وقت کیلیے پیش کرنے کی بھی پابندی عائد ہے اور ایسی تمام آن لائن گیمز کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شرائط کی خلاف ورزی ہرگزنہ کریں۔ ورنہ حکومتی ایکشن، جرمانے، جیل جانے اور کمپنی کی خدمات کی معطلی یا لائسنس/ رجسٹریشن کی معطلی کیلیے تیار رہیں۔
چینی میڈیا کے مطابق ’’بیجنگ‘‘ نے علی بابا گروپ کی ٹیکنالوجی اور ٹین سیٹ جیسی کمپنیوں کے حوالے سے پہلے ہی سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ نئے اصول و ضوابط کے اعلان کے فوراً بعد ہی آن لائن ویڈیو گیم فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں کے شیئرز میں کافی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔