’’ٹیسلا‘‘ کا 137 سنٹی میٹر اونچا روبوٹ 57 کلو وزن اٹھا سکتا ہے- سودا سلف لانے کے علاوہ چوکیداری بھی کر سکتا ہے۔فائل فوٹو
 ’’ٹیسلا‘‘ کا 137 سنٹی میٹر اونچا روبوٹ 57 کلو وزن اٹھا سکتا ہے- سودا سلف لانے کے علاوہ چوکیداری بھی کر سکتا ہے۔فائل فوٹو

مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹ انسانوں کیلیے خطرہ قرار

امریکی کمپنی ٹیسلا نے اڑنے والی کار بنانے کے بعد مصنوعی ذہانت کا حامل روبوٹ بھی تیارکرلیا جو نہ صرف گھر کا سودا سلف خرید سکے گا بلکہ گھر کی چوکیداری بھی کر سکے گا۔ لیکن ناقدین اس روبوٹ کی کارکردگی اس کے قاتل سافٹ ویئر کی بابت تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

میڈیا کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا حامل روبوٹ یعنی ہیومونائڈ پر کام تکمیل تک جا پہنچا ہے اور ایکسپرٹس کی جانب سے جانچ کا عمل جاری ہے۔ اس انسان نما روبوٹ کو ’اپٹیمس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ ٹیکنالوجی ایکسپرٹس نے اسے ’ٹیسلابوٹ ‘‘سے بھی موسوم کیا ہے۔ ٹیسلا روبوٹ کی اونچائی 173 سینٹی میٹراور وزن 57 کلوگرام کے لگ بھگ ہوگا۔ جو کسی بھی کام کی انجام دہی کیلیے فیڈ پروگرام کے تحت بازار جاسکے گا اورگروسری سمیت دیگر اشیا اٹھا کر لانے کے علاوہ گھر کے گارڈن میں مالی اور دروازے پر چوکیداری کا فریضہ بھی انجام دے سکے گا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹ کسی انسان کی جان بھی لے سکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی انجینئر کی جانب سے دوسروں کو نقصان پہنچانے والا سافٹ ویئر یا پروگرام فیڈ کرکے انسانوں کیلیے سیکیورٹی کے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

کمپنی کے ماہرین نے بتایاہے کہ ربورٹ کو حرکت دینے کیلیے 40 ایکچوایٹرز نصب کیے گئے ہیں۔ جو برقی مقناطیسی انداز میں کام کرتے ہوئے روبوٹ کے مختلف حصوں کو حرکت دیتے ہیں۔ ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلن مسک نے کہا ہے کہ ممکن ہے رواں سال کے اختتام تک روبوٹ کا پہلا نمونہ یا پروٹو ٹائپ سامنے آجائے۔ جو پینتالیس پائونڈز تک وزن اٹھاسکے گا۔ روبوٹ میں ٹیسلا گاڑیوں کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ کیونکہ اس ٹیکنالوجی کی آزمائش پہلے ہی کی جاچکی ہے۔ لیکن ناقدین کے مطابق ٹیسلا کی انسانی ڈرائیور کے بغیر چلائے جانیوالی گاڑیاں حادثات کا شکار ہوچکی ہیں اور اس بارے میں سو فیصد نتیجہ نہیں مل سکا ۔

ایلن مسک کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ کے چلنے کی کم از کم رفتار آٹھ کلومیٹر فی گھنٹا تک محدود رکھی گئی ہے۔ تاکہ وقت پڑنے پر اسے قابو کیا جاسکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو ٹیکنیکل ایکسپرٹ یا انجینئر اس روبوٹ کی رفتار کو محض آٹھ کلومیٹر تک محدود کرسکتا ہے۔ وہ اس کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹا تک بڑھا بھی سکتا ہے۔ اور اس کو انسان کے مقابلہ میں زیادہ طاقت ور بھی بنایا جاسکتا ہے۔

ڈینش انجینئر رٹز برانسن کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹ بظاہر بڑی دلچسپی کی حامل ہے۔ لیکن اس پر تحفظات بھی بڑے ہیں۔ کیونکہ روبوٹس کے بارے میں فکشن فلموں اور مضامین سے علم ہوتا ہے کہ ہر ایسی مافوق البشر ایجاد کے نتائج انتہائی بھیانک نکلتے ہیں۔ آئی روبوٹ، دی ٹرمی نیٹر ایسی فلمیں ہمیں تشویش میں مبتلا کرچکی ہیں اوراب یہی تشویش انسان نما روبوٹس کی ٹیکنالوجی اوران کے استعمال اور خفیہ مقاصد پر بھی ہے۔ یہ وہی ٹیکنالوجی ہے جن پر یہ فلمیں بنائی گئی تھیں اور اب ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا ایسے ہی روبوٹس تیار کر رہی ہے۔ ٹیسلا بوٹ کا مطلب ہے 125پاؤنڈ کا ہموار جلد والا انسان۔ جو ٹیسلا کی مصنوعی ذہانت سے چلنے والی خود کار گاڑیوں اور آٹو پائلٹ ٹیکنالوجی سمیت راستوں کی منصوبہ بندی اور فیڈ شدہ پروگرام کی پیروی کرنے کیساتھ ساتھ چلتی ٹریفک میں راستہ بنانے اور اس دوران پیدل چلنے والے انسانوں اور سڑک پر موجود رکاوٹوں سے بچ کر نکلنے کی ذمے داریاں ادا کرے گا۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ انسانوں کیلیے کتناخطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا حقیقی اعتبار سے 100 فیصد ممکن ہے۔ بس اس کا سافٹ ویئر تبدیل کرنے کی دیر ہے۔

یاد رہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو انسانی احساسات کے خاتمہ کی جانب ایک قدم کے بطور دیکھا جارہا ہے۔ مصنوعی ذہانت پر یورپی یونین اور امریکی اداروں کے تحفظات موجود ہیں۔ یورپی یونین نے مصنوعی ذہانت کے استعمال پر پابندی کیلیے قانون سازی کرلی ہے۔ اس مجوزہ پابندی کے تحت روبوٹس کی نگرانی کیلیے چہرے کی شناخت اور انسانی طرز عمل میں تبدیلی لانے والے مصنوعی ذہانت کے ایلگورتھم پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ کیونکہ یورپی یونین کے اداروں اورکمیشن نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو ہائی رسک قرار دیا ہے۔

ٹیکنالوجی امور کو دیکھنے والی برطانوی صحافی میلیسا ہکیلا نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ یورپین کمیشن ہائی رسک آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا خواہش مند ہے۔ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ مصنوعی روبوٹ کی یہ ٹیکنالوجی جتنی موثر ہے۔ اتنی قابل اعتماد نہیں۔ ٹیسلا کی آٹو پائلٹ کاروں سے ہونے والے حادثات اور اموات کو دیکھتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کو اتنی جلدی مارکیٹ میں متعارف کرانا دانش مندی نہیں۔