نجم الحسن عارف:
نیب چیئرمین جاوید اقبال کے ادارے سے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ محض بارہ دن رہ جانے کے باوجود ماضی کی روایت کی طرح کسی ریجنل دفتر میں نیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے لیے الوداعی تقریب منعقد نہیں ہوئی جس سے ان کی مدت ملازمت ختم ہونے کا پہلو سامنے آتا ہو۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ ایک چیئرمین کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب تر ہے۔ لیکن ابھی تک نیب کے پاکستان بھر میں کسی بھی دفتر میں ایسی کوئی سرگرمی نہیں آئی۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ جب بھی نیب چیئرمین کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا تھا تو اس سے تین ماہ پہلے ہی الوداعی تقریبات شروع ہوجاتی تھیں۔ سابق چیئرمین قمرالزماں چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کسی طاقتور ہاتھ نے پورے نیب کو اشارہ کر رکھا ہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کو ابھی الوداع نہیں کہنا۔ نہ ہی چیئرمین نیب نے اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے اب تک کسی میٹنگ یا ملاقات میں ایسی بات کی ہے۔
ذرائع کے مطابق حالیہ چند مہینوں میں ہونے والی اہم نیب میٹنگز میں بھی ایسا کوئی تاثر نہیں ملا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال ریٹائرمنٹ پر گھر چلے جائیں گے۔ ان ذرائع کے بقول جہاں تک چیئرمین نیب کے عہدے کے لیے کسی نئے نام کا تعلق ہے۔ اب تک نیب کے اندر ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کے علاوہ کسی قابل ذکر نام کا چرچا نہیں ہوا۔ لیکن ان کے خلاف نیب لاہور میں حالیہ دنوں میں ایک درخواست پر غورکیے جانے کی اطلاعات نے ان کے بارے میں شروع میں ہی ایک منفی تاثر پیدا کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق نیب کے اندر بھی اس چیز کو نوٹ کیا گیا ہے کہ حسین اصغر کے خلاف 8 ماہ قبل آنے والی شکایت پر تقریباً دو ماہ پہلے ہی نیب لاہور میں کیوں بحث مباحثے کا آغاز ہوا اور کیا وجہ بنی کہ یہ خبر اس وقت بریک ہوئی، جب چیئرمین نیب لاہور کے دورے پر تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی چیئرمین نیب چیئرمین کی ’’گڈ بکس‘‘ میں ان معنوں میں ہیں کہ ان کی جگہ پر وہ چیئرمین نیب بن جائیں۔ لیکن اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے نیب لاہورکے ان افسران کے خلاف فوری کارروائی کی گئی۔ جنہوں نے حسین اصغر کے خلاف لاہور نیب میں 8 ماہ پرانی درخواست کو ’’انٹرٹین‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیب کے ذرائع کے مطابق ظاہراً تو نیب چیئرمین کے ریٹائر ہونے کی صورت نظر نہیں آتی۔ بلکہ یہی غالب امکان ہے کہ وہ اگلی مدت کے لئے بھی نیب سربراہی کا عہدہ اپنے لئے ممکن بنائیں گے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے اب تک کے اصولی فیصلے میں بوجوہ تبدیلی ہوگئی یا کرنا پڑی تو اس کی ایک بڑی پریشانی آنے والے چند دنوں میں سامنے آئے گی کہ نیب میں آنے والے ایک ہفتے میں بڑے پیمانے پر تبادلے ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق یہ ان نیب افسران کے تبادلے ہوں گے۔ جن کے ایک عرصے سے تبادلے متوقع چلے آرہے ہیں اور انہیں نئی جگہوں یا پوسٹوں پر تعینات نہیں کیا گیا۔ تاہم موجودہ چیئرمین نیب نے ان سے ٹرانسفر کا وعدہ کر رکھا ہے۔ خیال رہے کہ جاوید اقبال کی چیئرمین شپ میں بہت کم افسران کے تبادلے ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کراچی نیب میں تبادلے بہرحال ایک بڑا فیصلہ تھے۔ ذرائع نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر چیئرمین نیب کو تین سالہ مدت پوری ہونے کے بعد بالآخر گھر بھجوانے کا اصل فیصلہ کرلیا گیا تو اس صورت میں کئی سال سے التوا میں چلے آنے والے تبادلے بھی سامنے آجائیں گے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس وقت تقریباً 95 فیصد افسران کے تبادلے ہونے چاہئیں۔ تاہم دیگر انتظامی ضرورتوں کے پیش نظر یہ تبادلے مسلسل زیر التوا رکھے گئے ہیں۔
’’امت‘‘ نے نیب چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کی ممکنہ توسیع کے حوالے سے ملک کے ماہر قانون دان سابق اٹارنی جنرل پاکستان اور سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’قانون اور قواعد کے مطابق موجودہ چیئرمین نیب کو قائم مقام کے طور پر ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے نہ مدت ملازمت میں توسیع دی جاسکتی ہے۔ البتہ نئے سرے سے دوبارہ اسی چیئرمین نیب کی تقرری کی جا سکتی ہے اور اس مقصد کے لئے قائد ایوان عمران خان قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف ہی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’قانون میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ قائد حزب اختلاف کے خلاف نیب میں مقدمہ ہو تو وہ نیب چیئرمین کے تقرر کے لئے اپنا آئینی حق استعمال نہیں کر سکتا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ پارلیمانی نظام حکومت میں وزیر اعظم کے بعد دوسرا بڑا عہدہ ہے۔ اس لئے وہ تمام تر مقدمات کے باوجود قومی اسمبلی میں آزادانہ اپنا کردار ادا کر سکتا۔ دوسری بات یہ کہ نیب مقدمات اور الزامات کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں۔ جب تک ان کے فیصلے نہ ہوں۔ قومی سلامتی کے امور تک میں قائد حزب اختلاف کا ایک مانا ہوا کردار ہے۔ ان امور کے مقابلے میں نیب چیئرمین کی تقرری تو ایک بہت معمولی معاملہ ہے‘‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں عرفان قادر نے کہا ’’موجودہ چیئرمین کو ’’ری ہائر‘‘ کرنے کے لئے بھی قائد حزب اختلاف کی مشاورت ضروری ہے۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے نیا قانون یا ترمیم لانے کی بات ہے، تو وہ جب سامنے آئے گا تو ہی اس پر بات ہو سکے گی۔ البتہ یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ایسے ترمیمی قوانین آسانی سے عدالتوں میں چیلنج ہو جاتے ہیں‘‘۔