امت رپورٹ:
ینگ ڈاکٹرز نے احتجاج میں شدت لانے کا فیصلہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ جب تک پاکستان میڈیکل کمیشن کے نائب صدر علی رضا کو عہدے سے نہیں ہٹایا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ منگل کے روز اسلام آباد پولیس نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی عمارت کے باہر ینگ ڈاکٹرز پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے برسائے، جب وہ رجسٹریشن سے متعلق قومی لائسنسنگ امتحان (این ایل ای) کو لازمی قرار دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ سادہ الفاظ میں اب میڈیکل کا کوئی طالب علم اس وقت تک بطور ڈاکٹر رجسٹرڈ نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ قومی لائسنسنگ امتحان پاس نہیں کرلیتا۔ مظاہرے کے دوران ہونے والی جھڑپ کے دوران پولیس نے اٹھارہ سے بیس ڈاکٹروں کو حراست میں لیا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد نے پاکستان میڈیکل کمیشن کی عمارت کے سامنے احتجاج کے لئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو خط لکھ کر اجازت لی تھی۔ اور وہ پرامن احتجاج کے لئے جمع ہوئے تھے۔ لیکن جب پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل استعمال کئے تو پھر حالات خراب ہوگئے۔ مظاہرے کے دوران ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پمز یونٹ کے نائب صدر ڈاکٹر طارق اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے پیٹرن انچیف سلمان حسیب زخمی ہوئے۔ جبکہ گرفتار ڈاکٹروں میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فیض خان اچکزئی شامل ہیں۔ دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے ایک بیان میں بتایا کہ مظاہرین نے پاکستان میڈیکل کمیشن کی عمارت میں گھسنے اور املاک کو توڑنے پھوڑنے کی کوشش کی۔ اس دوران چند شر پسندوں نے پتھرائو کیا۔ اس کے نتیجے میں ایس پی صدر زون زخمی ہوئے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گرفتار شدگان کی رہائی کے معاملے پر وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے مابین مذاکرات چل رہے تھے۔ منگل کی رات اس رپورٹ کو فائل کئے جانے تک یہ بات چیت جاری تھی اور امکان تھا کہ جب یہ سطور قارئین پڑھ رہے ہوں گے تو گرفتار ڈاکٹروں کی رہائی عمل میں آچکی ہوگی۔ قبل ازیں ینگ ڈاکٹرز نے الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر پولیس نے ڈاکٹروں کو مسلسل حراست میں رکھا تو پھر ملک گیر ہڑتال کی جائے گی۔ اس دھمکی پر ہی حکومت کی جانب سے ڈاکٹر فیصل سلطان نے ینگ ڈاکٹرز کے رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔
تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار کے بقول حراست میں لئے جانے والے ڈاکٹروں کی رہائی کے باوجود احتجاج جاری رہے گا۔ اور یہ احتجاج اس وقت ختم ہوگا، جب قومی لائسنسنگ امتحان کو لازمی بنانے سے متعلق حکومت اپنا فیصلہ واپس نہیں لے لیتی۔ آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے آج بدھ کو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا اجلاس ہوگا، جس میں احتجاج کا دائرہ کار بڑھانے سمیت دیگر اہم فیصلے متوقع ہیں۔
حکومت اور ینگ ڈاکٹرز کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجوہات جاننے کے لئے ’’امت‘‘ نے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے رہنما ڈاکٹر فضل ربی سے، جو ایک اسپتال میں اسپیشلسٹ ہیں، رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’’پاکستان میڈیکل کمیشن کے سامنے ہمارا حالیہ مظاہرہ صرف قومی لائسنسنگ امتحان کو لازمی قرار دینے سے متعلق حکومتی فیصلے کے خلاف نہیں تھا، بلکہ ہم متنازعہ داخلہ ٹیسٹ کے خلاف بھی احتجاج کر رہے تھے‘‘۔ واضح رہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے ان تمام میڈیکل گریجویٹس کے لئے قومی لائسنسنگ امتحان (این ایل ای) لازمی قرار دیا ہے، جو اس وقت ہائوس جاب کر رہے ہیں یا اپنی مستقل رجسٹریشن کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس، دونوں طلبا کو مستقل ملازمت کے لئے اور پاکستان میں میڈیسن کی پریکٹس کے لئے این ایل ای پاس کرنا ہوگا۔ اس حکومتی اقدام پر ڈاکٹرز پچھلے کئی ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔
جب ڈاکٹر فضل ربی سے دریافت کیا گیا کہ حکومت اگر مستقبل کے ڈاکٹروں کی قابلیت یقینی اور صحت کا نظام معیاری بنانے کے لئے این ایل ای کا امتحان لینا چاہتی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اس پر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما کا کہنا تھا ’’اصل مسئلہ یہ نہیں۔ بلکہ حکومت کی بدنیتی ہے۔ جب ایک ڈاکٹر پانچ بڑے امتحان پاس کرسکتا ہے تو چھٹا امتحان (این ایل ای) بھی دے سکتا ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ حکومت پانچ امتحان پاس کرنے والے ڈاکٹروں سے چھٹے امتحان کا اصرار کرکے ایک طرح سے ملک کے تعلیمی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے خود پاکستان میڈیکل کمیشن کے نائب صدر علی رضا نے کہا تھا کہ یونیورسٹیز پر ان کا اعتماد نہیں ہے کہ وہاں نقل ہوتی ہے، تو پھر میڈیکل کالجوں کے امتحانات ان ہی یونیورسٹیز میں لینے کی اجازت بدستور برقرار کیوں رکھی گئی ہے اور دوسرا یہ کہ تعلیم کا معیار بہتر بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور امتحان کے معیار کو بہتر بنائے بغیر اضافی امتحان لینے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔
ڈاکٹر فضل ربی نے، جو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے صدر بھی رہ چکے ہیں، الزام لگایا کہ دراصل چھٹا امتحان لے کر حکومت مزید پیسے بٹورنا چاہتی ہے۔ اور اس امتحان کے ذریعے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مافیا کو بھی نوٹ کمانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فضل ربی کے بقول اس وقت ملک بھر میں ہائوس جاب کرنے والے اور خود کو بطور ڈاکٹر رجسٹریشن کرانے والوں کی تعداد پندرہ سے بیس ہزار ہے۔ این ایل ای امتحان کے لئے ایک امیدوار کو مزید بارہ سے چودہ ہزار کے اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے۔ یوں یہ رقم کروڑوں میں بنتی ہے۔ ڈاکٹر فضل ربی کے بقول اسی طرح ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کو داخلہ ٹیسٹ پر بھی اعتراض ہے۔
ان کا الزام تھا کہ ان داخلہ ٹیسٹ میں بڑے پیمانے پر گھپلے ہوئے ہیں۔ جو لوگ پاس ہونے کے حقدار تھے، انہیں فیل کر دیا گیا۔ اور فیل طلبا کامیاب ہوگئے۔ پھر یہ کہ ان داخلہ ٹیسٹ کے لئے پاکستان میڈیکل کمیشن نے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نجی کمپنی کی خدمات حاصل کیں، جس نے داخلہ ٹیسٹ کے سارے عمل کو مشکوک بنادیا۔ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے خواہش مند طلبا کے لئے یہ ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے۔ پبلک سیکٹر کالج مکمل طور پر ایم ڈی سی اے ٹی اور ایف ایس سی میں حاصل کردہ پچاس فیصد نمبروں کی بنیاد پر داخلہ دیتے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ کالجوں کوایم ڈی سی اے ٹی کے لئے اپنی پسند کے نمبر مقرر کرنے کی اجازت دی گئی اور انٹرویو کے لئے بیس نمبر بھی رکھے گئے۔ یہ ٹیسٹ اس لئے بھی متنازعہ بن گیا کہ اسے ایک نجی کمپنی نے کمپیوٹر کے ذریعے لیا تھا۔ اور اس طرح طلبا کو اپنے جوابی پرچے دوبارہ چیک کرنے کے موقع سے محروم کر دیا۔ تاہم پاکستان میڈیکل کمیشن کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے بائیس شہروں اور بیرون ملک شکاگو، دوحہ، دبئی، لندن، ریاض اور ٹورنٹو میں بہترین ممکنہ نظام کے تحت ٹیسٹ لئے گئے، جس میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔
تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے علاوہ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے بھی ایم ڈی سی اے ٹی کے نتائج کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور حکومت کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) بحال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جسے اکتوبر دو ہزار انیس میں صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جاری ایک آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کرکے پاکستان میڈیکل کمیشن قائم کیا گیا تھا، جس کے نائب صدر اس وقت علی رضا ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے رہنما ڈاکٹر فضل ربی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے پی ٹی آئی کو مثبت تبدیلی کے لئے ووٹ دیا تھا۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ تبدیلی کے لئے دیا گیا یہ ووٹ ہمارا کیا حشر کرے گا‘‘۔ ڈاکٹر فضل ربی کے بقول اقربا پروری کے ریکارڈ توڑ دیئے گئے ہیں۔ پہلے وزیراعظم نے اپنے کزن ڈاکٹر نوشیرواں برقی کو پاکستان ہیلتھ ٹاسک فورس کا سربراہ بنادیا۔ ڈاکٹر نوشیرواں کبھی کبھار پاکستان آجاتے ہیں۔ زیادہ تر وہ امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے ہیلتھ سسٹم کو اسکائپ کے ذریعے چلا رہے ہیں۔ اسی طرح پہلے تو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کرکے اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور پھر وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک دیرینہ دوست علی رضا کو اس کمیشن کا نائب صدر بنادیا، جو کسی زمانے میں عمران خان کے ساتھ گالف کھیلا کرتے تھے۔ ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق علی رضا ایک ایڈووکیٹ ہیں۔ ان کا میڈیکل کے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کسی ڈاکٹر کو بار کونسل کا صدر بنادیا جائے۔ لہٰذا ڈاکٹروں کا احتجاج علی رضا کو ہٹائے جانے اور اپنے دیگر مطالبات کے تسلیم کئے جانے تک جاری رہے گا۔ احتجاج میں شدت لانے کے لئے ملک کے اسپتالوں میں معمول کی سروسز معطل کرنے، پاکستان میڈیکل کمیشن اور پارلیمنٹ کے گھیرائو کے ساتھ جیل بھرو تحریک سمیت دیگر آپشن اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ اس معاملہ میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) بھی ان کے ساتھ ہے۔
اس سارے معاملے پر پاکستان میڈیکل کمیشن کے کسی ذمہ دار سے موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ تاہم پاکستان میڈیکل کمیشن کے کال سینٹر پر فون کیا گیا تو بتایا گیا کہ ابھی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔ این ایل ای (میڈیکل اور ڈینٹل) کے دوسرے اسٹیپ کے امتحان یکم دسمبر کو ہوں گے۔ جبکہ پہلے اسٹیپ کے امتحانات اکتوبر کے آخری ہفتے میں متوقع ہیں۔ فی الحال اس سلسلے میں حتمی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے۔