حسام فاروقی:
دنیا بھر میں سیکیورٹی فورسز کے زیراستعمال بجلی کا جھٹکا دینے والا آلہ ٹیزراب پاکستان میں باآسانی فروخت کیا جا رہا ہے۔ جس سے پاکستان اوربالخصوص کراچی کے شہریوں کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ الیکٹرک شاک مشین جرائم پیشہ افراد کیلیے کسی اہم ہتھیار سے کم نہیں ہو گا، کہ ملزمان اسلحہ دکھاکر نہیں بلکہ ٹیزر سے لوٹ مار کی کارروائیاں کرنے لگیں گے۔اس کی قیمت ہزاروں سے شروع ہوکر لاکھوں تک ہے اور یہ افغانستان کے ذریعے پاکستان لایا جا رہا ہے۔
ابھی یہ آلہ زیادہ عام نہیں ہوا۔ تاہم اگراس کی آن لائن فروخت روکی نہ گئی تو جلد یہ ہر خاص وعام کی پہنچ میں ہوگا۔ فی الوقت اس کی فروخت آئن لائن ویب سائٹس، کراچی کے کچھ بڑے اسٹوروں اور بعض دکانوں پر چوری چھپے کی جا رہی ہے۔ اس الیکٹرک شاک مشین ٹیزر سے ڈھائی ہزار وولٹ سے لے کر 5 ہزار وولٹ تک بجلی کا جھٹکا دیا جا سکتا ہے۔ جو کسی بیماراورکمزورانسان کی جان لینے اور ہٹے کٹے شخص کو بے ہوش کرنے کیلیے کافی ہوتا ہے۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک میں سیکیورٹی ادارے ٹیزر یا ٹیزرگن سے ملزمان کو قابو کرنے میں مدد لیتے ہیں۔ اس کا استعمال امریکی فوج نے افغانستان میں بھی عام شہریوں کو قابو کرنے کیلیے کیا تھا۔ یہ آلہ بہت سے ممالک میں عوام کیلیے ممنوع ہے اوراسے رکھنا جرم تصورکیا جاتا ہے۔ مگر اب یہ خطرناک الیکٹرک شاک مشین پاکستان میں لوگوں کے پاس دیکھی جا رہی ہے اوراس کی فروخت آن لائن جاری ہے۔ یہ آلہ مختلف شکلوں میں دستیاب ہے۔ کچھ ٹیزر دور سے شکار کو قابو کرنے کیلیے بنائے گئے ہیں اور بعض آلے نزدیک سے انسان کو بجلی کا شدید جھٹکا دینے کیلئے تیار کئے گئے ہیں۔ اگر اسے مطلوبہ وقت سے زیادہ استعمال کیا جائے تو یہ کسی بھی انسان کی جان لے سکتا ہے۔
سیکیورٹی زون ون میں تعینات ایک افسرکا کہنا تھا کہ یہ آلہ ابھی تک پاکستانی پولیس کو نہیں دیا گیا۔ کیونکہ اسے استعمال کرنے کیلیے خصوصی مہارت اورتربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹریننگ میں بتایا جاتا ہے کہ یہ آلہ انسانی جسم کے کس حصے پر استعمال کرنا ہے۔ تاکہ مطلوبہ شخص کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ مگر اب یہ آلہ کئی نوجوانوں کے ہاتھوں میں دیکھا جا رہا ہے۔ ٹیزرکو رکھنے کا ٹرینڈ اسلام آباد سے شروع ہوا تھا اوراب کراچی کے پوش علاقوں کے نوجوان بھی یہ آلہ اپنے ساتھ رکھ رہے ہیں۔ جبکہ اس کی نمائش بھی کھلے عام کی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق چونکہ ٹیزرکو رکھنے یا رکھنے سمیت کوئی ضابطہ اخلاق ابھی تک طے نہیں کئے جا سکا۔ اس لئے پولیس بھی ٹیزر کیخلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ جب تک اس آلے سے متعلق قانون میں شق نہیں ڈالی جاتی، تب تک اس کی فروخت اور استعمال پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ ٹیزر اتنا چھوٹا بھی ہوتا ہے کہ اسے آسانی سے جیب میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس آلے سے کیا کیا تقصانات ہو سکتے ہیں؟ اس پر سیکیورٹی زون میں تعینات افسر کا کہنا تھا کہ یہ آلہ اسٹریٹ کرمنلز، گھروں میں چوری کرنے والے افراد اور ان خواتین کیلیے کسی سوغات سے کم نہیں ہوگا جو گھروں میں کسی بہانے سے داخل ہوکر پورے گھر کا صفایا کر دیتی ہیں۔ اس آلے کے عام ہونے سے جرائم پیشہ عناصرکو لوٹ مار کرنے کیلیے اسلحہ رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کسی کو بھی اس آلے سے جھٹکا دینے کے بعد بے ہوش یا بے سدھ کیا جا سکتا ہے۔ گھروں کے علاوہ سنسان جگہوں پر بھی لوگوں کو لوٹنے کییئے یہ آلہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ یہ آلہ اس وقت پاکستان میں آن لائن ویب سائٹس پرباآسانی دستیاب ہے۔ جہاں سے اسے خریدا جا سکتا ہے۔ جس کمپنی کی یہ ویب سائٹ ہے، اس کا نمائندہ یہ آلہ گھر کے دروازے پر پہنچا کر جائے گا۔ یہ تمام ویب سائٹس وہ ہیں جنہیں پاکستان سے ہی چلایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی واٹس ایپ گروپوں میں بھی اس آلے کی فروخت کے اشتہارات موجود ہیں۔
اس آلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عباسی اسپتال کے ڈاکٹر عارف کا کہنا تھا کہ ’’اس آلے سے بجلی کا اخراج ایک وقت جتنی مقدار میں ہوتا ہے، وہ ڈھائی ہزار سے 5 ہزار وولٹ تک ہوتی ہے۔ جو کسی بھی جان دار شخص کو بے ہوش یا کچھ وقت کیلیے مفلوج کر نے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ اگر اس شخص پر اس آلے یعنی ٹیزر کا استعمال مسلسل کیا جائے تو اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس آلے کے استعمال سے مطلوبہ شخص کا دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اور دل کی دھڑکنیں کم ہو جاتی ہیں، جو کافی خطرناک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اس آلے کا استعمال کسی بیمار شخص جیسے دل کے مریض، شوگر کے مریض یا پھر کسی اور شدید بیماری کے حامل شخص پر کیا جائے تو اس کی فوری جان بھی جا سکتی ہے۔
ایک سوال پر ڈاکٹر عارف کہنا تھا کہ اگر یہ آلہ یعنی ٹیزر پاکستان میں ہر خاص و عام کی پہنچ میں آگیا تو پھر اس سے متاثر ہو کر آنے والے افراد کی تعداد اسپتالوں میں کافی زیادہ ہوجائے گی۔ کیونکہ لڑائی جھگڑوں، لوٹ مار یا پھر مذاق میں بھی اس آلے کا استعمال نوجوان کریں گے۔ اس لئے فوری طور پراس آلے کی پاکستان آمد اور فروخت پر حکومت کو پابندی عائد کرنی چاہیے۔
صدر الیکٹرونکس مارکیٹ کے ایک دکاندار جاوید کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹیزر نامی آلہ ابھی اتنا عام نہیں ہوا۔ مگر کئی بڑے دکاندار اس آلے کو پشاور سے منگوا کر بھاری قیمت پر چوری چھپے فروخت کر رہے ہیں۔ ابھی اس کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے خریدار کم ہیں اور مالدار نوجوان ہی شوقیہ خرید رہے ہیں۔ تاہم اگراس کی چائنا کاپی پاکستان میں لانچ ہو گئی تو پھر یہ آلہ پاکستان بھر میں با آسانی دستیاب ہو جائے گا اور پھر معاملہ خراب ہونا شروع ہوجائے گا۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ یہ الیکٹرک شاک مشین یا ٹیزر افغانستان کے راستے پاکستان لایا جا رہا ہے۔ جو عام سامان کے ساتھ پہلے پشاورکی کارخانو مارکیٹ میں پہنچتا ہے۔ پھر وہاں سے دیگر شہروں میں پہنچایا جاتا ہے۔ دکاندار جاوید کا کہنا تھا کہ یہ آلہ نہایت خطرناک ہے۔ ہر خاص وعام کے ہاتھ میں اس آلے کا آنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلیے درد سر بن جائے گا۔ اس لئے ابھی سے ٹیزر کی روک تھام کیلیے حکمت عملی طے کرنا لازمی ہو گیا ہے۔