امت رپورٹ:
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دو ہزار اکیس کے اپنے پہلے میچ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی ذلت آمیز شکست کے نتیجے میں بھارتی جواریوں کے اربوں روپے بھی ڈوب گئے۔ دوسری جانب پاکستان نے ڈریسنگ روم میں طے کی گئی حکمت عملی کے عین مطابق کرکٹ کھیلی اور اپنا ہدف آسانی سے حاصل کرلیا۔ اس اسٹرٹیجی کے تحت طے کیا گیا تھا کہ پاور پلے میں رنز کی کیا اوسط رکھنی ہے اور بظاہر خطرناک دکھائی دینے والے بھارتی اسپنر ویرون چکرورتی سے کیسے نمٹنا ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کے روز پاکستان نے ورلڈ کپ مقابلوں میں بھارت سے شکست کا جمود توڑ کر اسے چاروں شانے چت کر دیا اور دس وکٹوں سے فتح اپنے نام کی۔ بھارت کی جانب سے ایک سو باون رنز کا ہدف پاکستان نے بغیر کسی نقصان کے اٹھارہویں اوور میں حاصل کر لیا۔ پاکستانی اوپنرز محمد رضوان اور بابر اعظم نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی نصف سنچریاں مکمل کیں۔
کرکٹ پرغیر قانونی سٹے کے عالمی بازار سے جڑے ذرائع نے بتایا کہ میچ سے قبل اور میچ کے دوران پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے میچ پر مجموعی طور پر بتیس ارب روپے سے زائد کا غیرقانونی جوا کھیلا گیا۔ قبل ازیں اندازہ کیا گیا تھا کہ یہ حجم اکتیس ارب روپے تک رہے گا۔
دبئی میں بکیز کے نیٹ ورک سے رابطے میں رہنے والے ایک بکی کے بقول اس بتیس ارب روپے کے جوئے میں سے انیس ارب سے زائد کا جوا صرف بھارت میں کھیلا گیا۔ ان میں بڑی بکوں پر بڑے پیمانے پر سٹہ کھیلنے والے انڈین پنٹروں کے علاوہ چھوٹی بکوں پر پانچ سو روپے سے ڈیڑھ ہزار روپے تک لگانے والے دیہاڑی دار بھارتی مزدور اور محنت کش طبقہ بھی شامل تھا۔
بکی کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کے بیشتر جواریوں نے تو میچ کے دوران پانسہ پلٹتا دیکھ کر بھارتی ٹیم کی ہار پر پیسہ لگانا شروع کر دیا تھا۔ لہٰذا وہ بڑے نقصان سے بچے رہے۔ جبکہ ایک قابل ذکر تعداد نے منافع بھی کمایا۔ تاہم بھارتی جواریوں کی بڑی تعداد کھیل کا رخ تبدیل ہوتا دیکھنے کے باوجود جذبات میں بہہ گئی۔ اوراپنا نقصان پورا یا کم کرنے کے لیے پاکستان کی جیت پر رقم لگانے سے گریز کرتی رہی۔ جبکہ چھوٹی بکوں پر سٹہ کھیلنے والے دیہاڑی داروں کے پاس اپنے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے عموماً پیسے نہیں بچتے کہ وہ دوبارہ سٹہ لگا سکیں۔
واضح رہے کہ پاکستان نے پاور پلے کے چھ اوورز میں جب بغیر وکٹ کھوئے سات سے زائد ایوریج کے ساتھ تینتالیس رنز بنائے تو سٹے کی عالمی مارکیٹ میں پاکستانی ٹیم فیورٹ ہو چکی تھی۔ جس کے بعد خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے جواریوں نے پاکستان کی جیت پر پیسہ لگانا شروع کر دیا تھا۔ چودھویں اوور میں جب میچ کا پانسہ مکمل طور پر پلٹ گیا اور پاکستان کی جیت تقریباً یقینی دکھائی دے رہی تھی تو پاکستانی ٹیم سٹہ بازار میں موسٹ فیورٹ ہو چکی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی جیت کا ریٹ گیارہ روپے اور پاکستانی فتح کا بھائو محض چار پیسے رہ گیا تھا۔ جس کے بعد بکیز نے سٹہ لینا بند کر دیا تھا۔ بکی نے بتایا کہ سٹے یا جوئے میں ہمیشہ پنٹرز (جواری) نقصان میں رہتے ہیں۔ بکیز کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ میچ کی صورت حال کے مطابق بھائو میں اتار چڑھائو کر کے اپنی بکوں کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔
ادھر دبئی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ میچ سے قبل اور بھارتی ٹیم کی بیٹنگ کے بعد ڈریسنگ روم میں پاکستانی ٹیم نے جو حکمت عملی ترتیب دی تھی۔ دونوں اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان عین اس کے مطابق کھیلے۔ میدان میں اترنے سے قبل ڈریسنگ روم میں طے کی جانی والی اسٹرٹیجی کے مطابق بھارتی ٹیم کو ایک سو تیس سے ایک سو چالیس رنز تک محدود رکھنے کا پلان بنایا گیا تھا۔ پاکستانی بالرز نے اس پلان کو قابل عمل بنانے میں بڑی حد تک اپنا کردار ادا کیا۔ اگرچہ پلان کے مطابق بھارتی ٹیم کو ایک سو چالیس رنز تک محدود تو نہیں رکھا جا سکا۔ لیکن محض گیارہ اضافی رنز کے ساتھ ایک سو اکیاون رنز پر ڈھیر کر دیا گیا۔ بالخصوص شاہین شاہ آفریدی اور حارث رئوف کی بالنگ قابل دید تھی۔ جہاں شاہین آفریدی نے ویرات کوہلی سمیت صف اول کے تین بھارتی بیٹسمینوں کو پویلین کی راہ دکھا کر بلیو شرٹس کو سخت دبائو کا شکار کیا۔ وہیں، حارث رئوف نے کم رنز دے کر اپنا رول نبھایا۔
ذرائع نے بتایا کہ حارث رئوف کو بھی حکمت عملی کے تحت بھارتی اننگ کا آخری یعنی بیسواں اوور دیا گیا تھا۔ کیونکہ آخری اوور میں عموماً بالر دبائو میں ہوتا ہے اور بیٹسمین کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر بال کو ہٹ کیا جائے۔ اگر آخری اوور میں اٹھارہ سے بیس رنز بن جائیں تو سارا ایوریج خراب ہو جاتا ہے۔ چونکہ حارث رئوف بالکل آخری لمحات میں سلو بال کرانے کی حیران کن صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس ورائٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں آخری اوور دینے کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا تھا۔ حارث رئوف نے اپنے چاروں اوورز کے دوران اپنی بالنگ ورائٹیز کا بھرپور مظاہرہ بھی کیا اور خاص طور پر آخری اوور میں بھارتی بلے باز انہیں بڑے شاٹ نہیں لگا سکے۔
ذرائع کے مطابق بیٹنگ سے قبل ڈریسنگ روم میں تیار کیے جانے والے پلان کے مطابق اوپنرز نے طے کیا تھا کہ کم از کم پاور پلے کے ابتدائی چھ اوورز میں چھ سے سات رنز کی اوسط رکھنی ہے۔ اور پلان کے مطابق دونوں اوپنرز اس میں کامیاب بھی رہے۔ چھ اوورز کے اختتام پر پاکستانی ٹیم کا اسکور بغیر کسی نقصان کے تینتالیس رنز یعنی اپنی مطلوبہ اوسط سے ایک رنز زیادہ تھا۔
ذرائع کے بقول یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ پاور پلے کے اوورز میں وکٹ نہیں کھونی۔ اگر کسی اوور میں رنز کم بنتے ہیں تو اگلے اوور میں اوسط پوری کی جا سکتی ہے۔ پاکستانی اوپنرز نے نہ صرف اس پلان پر پوری طرح عمل کیا۔ بلکہ وننگ شاٹ کے آخرتک وکٹ نہ کھوکرکرکٹ پنڈتوں کو حیران کر دیا۔ ڈریسنگ روم کے پلان میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ بھارت کے خطرناک قرار دیے جانے والے اسپنر ویرون چکرورتی کے چاروں اوورزکو انتہائی احتیاط سے کھیلنا ہے۔ اوراگر اس میں کم رنز بھی بنیں تو مضائقہ نہیں۔ دیگر بالرز کے اوورز میں یہ اوسط پوری کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ویرون چکرورتی ان فارم بالر ہیں اور دبئی جیسی وکٹ پر ان کی بال کے خاصی بریک ہونے کا امکان تھا۔ تاہم پاکستانی اوپنرز جو کہ پوری طرح سیٹ ہو چکے تھے اورانہیں کرکٹ بال، فٹ بال نظر آرہی تھی۔ ابتدائی دو اوور کے بعد انہوں نے ویرون چکرورتی کو بھی نہیں بخشا۔