غذا میں نمک کی مقدار 220 ملی گرام یومیہ سے زائد نہیں ہونی چاہیے- عالمی ماہرین۔فائل فوٹو
غذا میں نمک کی مقدار 220 ملی گرام یومیہ سے زائد نہیں ہونی چاہیے- عالمی ماہرین۔فائل فوٹو

نمک کا زیادہ استعمال جان لیوا امراض کا باعث سکتا ہے۔ طبی ماہرین

احمد نجیب زادے:
امریکی طبی ماہرین کا ایک نئی تحقیق میں کہنا ہے کہ نمک کا محتاط استعمال قوت مدافعت کو بڑھاتا اور مفید انزائیم کی پرورش کرتا ہے۔ جبکہ نمک کا زائد استعمال بلند فشار خون کا سبب اور جلد موت کا پروانہ بن سکتا ہے۔ امریکی ماہرین صحت نے تجویز کیا ہے کہ ہر صحت مند انسان روز چائے کے ایک چمچ سے زیادہ نمک کا استعمال ہرگزنہ کرے ورنہ جان لیوا بیماریوں کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

کیمیکل ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نمک انسانی جسم کیلئے ضروری ہے۔ لیکن درکار نمک کی مقدار 220 ملی گرام یومیہ سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ ایک ایکسپرٹ جوشوا ہنگز کا کہنا ہے کہ کھانے میں نمک کی معمولی سی بھی مقدار کم کر دینے سے صحت پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔

’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے مطابق ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ کھانوںمیں نمک کی مقدار کم سے کم رکھی جائے۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت ایک ارب تیس کروڑ انسان بلڈ پریشر کا شکار ہیں۔ ایسے مریضوں کی عمریں تیس برس سے 80 برس تک ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ اس مرض کا شکار ہیں۔ کیونکہ بلڈ پریشرکی کوئی خاص علامات ظاہرنہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے اس مرض کو ’’خاموش قاتل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے کسی بھی وقت دل کا دورہ پڑ سکتا ہے اور فالج کا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ کھانے میں نمک کے بے دریغ استعمال سے ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں دورہ قلب یا فالج کے خطرات کئی گنا تک بڑھ سکتے ہیں۔

امریکا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق کھانوں میں صرف 350 ملی گرام یاچائے کے ایک چمچ کا چھٹا حصہ کم کر دینے سے دنیا بھر میں ایک کروڑ اور صرف امریکا میں دس لاکھ انسانوں کو دل کے دورے اور فالج کے حملوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ امریکی طبی ادارے ’’ایف ڈی اے‘‘ کا کہنا ہے کہ نمک کی مقدار 40 فیصد تک کم کر دینے سے اگلی ایک دہائی میں امریکا میں پانچ لاکھ شہریوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔

چینی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ خوراک میں نمک کم کرنے کے فوائد جاننے کیلئے چین میں مختلف عمروں والے اکیس ہزار مرد و خواتین پر ایک جامع طبی تحقیق کی گئی جس میں انہیں عام کھانے کے نمک کے بجائے پوٹاشیم ملا نمک دیا گیا۔ اس تحقیق میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ عام نمک کے بجائے پوٹاشیم ملے نمک کے استعمال سے ان اکیس ہزار چینی باشندوںمیں ہائی بلڈ پریشر، اچانک موت اور دل کے دورے سمیت فالج کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوگیا۔ محققین کے مطابق عام خوردنی نمک سوڈیم پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا کیمیائی نام ’’سوڈیم کلورائیڈ‘‘ ہے۔

امریکا میں نئی تحقیق کے مطابق ہیلتھ ایکسپرٹس تجویز کرتے ہیں کہ ہر صحت مند انسان روزانہ 2.3 گرام یا چائے کا ایک عام چمچ سے زیادہ نمک استعمال نہ کرے۔ لیکن جو لوگ بلڈ پریشر کی شکایت میں مبتلا ہیں ان کو ڈیڑھ گرام سے زیادہ نمک ہرگز نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ نمک ہمیشہ سے انسانی خوراک کا حصہ نہیں رہا۔ زرعی اجناس کے استعمال سے پہلے لوگ زیادہ تر خوراک گوشت سے حاصل کرتے تھے، جس میں نمک مطلوبہ مقدار میں پہلے ہی موجود ہوتا تھا۔ غذائی ماہرین کے مطابق قدیم لوگ بہت سی اقسام کی جڑی بوٹیاں، سبزیاں اور پھل وغیرہ کھاتے تھے۔ لیکن زرعی اجناس کے استعمال کے دور کا آغاز ہوا تو انسان نے اناج کا بڑی مقدار میں استعمال شروع کردیا اور معدنی نمک کا باقاعدہ استعمال شروع ہوگیا۔ اگرچہ نمک دو کیمیائی اجزا کلورین اور سوڈیم پر مشتمل ہے۔ لیکن سوڈیم وہ عنصر ہے جو بلڈ پریشر میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ جب غذا میں نمک زیادہ ہو تو وہ معدے اور آنتوں سے ہوتا ہوا خون میں حل ہوجاتا ہے اورخون میں سوڈیم کی مقدار زیادہ ہو تو گردے جسم سے پانی کا اخراج کم کر دیے ہیں اور یوں رگوں میں پانی کی مقدار زیادہ ہونے سے جسم میں خون کی مجموعی مقدار بڑھ جاتی ہے، جس سے خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور اس اضافی دباؤ کا اثر دل اور رگوں دونوں پر پڑتا ہے۔ اسی لیے امریکی ایکسپرٹس نے عوام کو تجویز دی ہے کہ کھانے میں نمک کو بتدریج کردیا۔ جائے ویسے بھی فتہ رفتہ نمک کم کرنے سے آپ کو ذائقہ میں فرق محسوس نہیں ہوگا۔

کئی غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم نمک کا عادی ہونے کی ایک اور ترکیب یہ ہے کہ کھانا پکاتے وقت نمک ڈالنے کے بجائے بعد میں اوپر سے نمک چھڑک لیجیے۔ اس طرح سے کم نمک استعمال ہو گا اور اس کی مقدار حسب ضرورت کم یا زیادہ کی جا سکتی ہے۔ عالمی سائنسی جریدے ’’سیل میٹابولزم ‘‘ نے بتایا ہے کہ اس بارے میں پہلے سے آگاہی تھی کہ جسم فاضل نمک یا سوڈیم کو جلد کی تہہ میں محفوظ کر لیتا ہے، مگر یہ واضح نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔

جرمن شہر ریگنزبرگ کے یونیورسٹی اسپتال کے پروفیسر جوناتھن ژانچ کہتے ہیںکہ جمع شدہ نمک جلد کو مائیکروبز یا خوردبینی جرثوموں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس عمل میں نمک جسم میں موجود میکروفیجز یا فیگو سائیٹس خلیوں کو متحرک بناتا ہے۔ یہ خلیہ، جنہیں امیون سیلز بھی کہتے ہیں، نسیجوں اور بافتوں کی تنظیم اور مرمت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن پروفیسر جوناتھن نے زیادہ نمک کھانے والوں کو خبردار بھی کیا ہے۔ پروفیسر جوناتھن کی طرح کئی عالمی ماہرین غذائیت نے کہا ہے کہ کھانے میں نمک کی مقدار کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی، سوائے اس کے کہ نمک کو اعتدال میں استعمال کیا جائے۔