اضافی چارج اور لک آفٹر چارج پر پابندی اور افسران کو سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹائے جانے کی وجہ سے دفاتر میں فائلوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں
اضافی چارج اور لک آفٹر چارج پر پابندی اور افسران کو سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹائے جانے کی وجہ سے دفاتر میں فائلوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں

وفاق سےافسران نہ ملنےپرسندھ میں انتظامی امورٹھپ

رپورٹ: نواز بھٹو

وفاق کی طرف سے سندھ میں اعلیٰ عہدوں پر پی اے ایس افسران کی عدم تعیناتی پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو تفصیلی خط لکھ دیا۔ گریڈ 17 سے 21 تک کے 186 اعلیٰ افسران کی کمی کی وجہ سے سندھ حکومت کو انتظامی امور چلانے میں سنگین دشواری کا سامنا ہے۔

وفاقی حکومت سندھ کے مختلف محکموں کے لئے مقررہ حصے کے مطابق گریڈ 17 کے 52 فیصد، 18 کے 45 فیصد، 19 کے80 فیصد، 20 کے75 فیصد اور گریڈ 21 کے 75 فیصد سے زائد افسران فراہم نہ کر سکا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تین خطوط ارسال کئے جانے وزیر اعظم اور معاون خصوصی کی توجہ مبذول کروائے جانے کے باوجود افسران کی تعیناتی نہ ہو سکی۔ خط میں اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور وفاق سے رجوع کرنے کی درخواست۔

تفصیلات کے مطابق سندھ میں وفاقی حکومت کی طرف سے اپنے حصے کے مطابق پی اے ایس افسران تعینات نہ کرنے کی وجہ سے سندھ حکومت سنگین انتظامی بحران سے دوچار ہو گئی ہے۔ اضافی چارج اور لک آفٹر چارج پر پابندی اور افسران کو سپریم کورٹ کے حکم پر ہٹائے جانے کی وجہ سے دفاتر میں فائلوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں اور کئی اہم امور التوا کا شکار ہو گئے ہیں۔

اس سلسلے میں 27 اکتوبر 2021 کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو تفصیلی خط ارسال کر دیا ہے۔ ارسال کئے جانے والے خط میں کہا گیا ہے کہ انتظامی بحران کے پیش نظر سندھ حکومت نے رواں سال 9 فروری، یکم مارچ اور یکم جون کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تفصیلی خط ارسال کرتے ہوئے وفاق کے حصے کے مطابق افسران تعینات کرنے کی درخواست کی گئی تھی لیکن ان خطوط کو نظر انداز کر دیا گیا۔

محکمہ سروسز کی طرف سے بھی 23 ستمبر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک خط ارسال کیا گیا تھا جس میں خالی آسامیوں سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے مختلف اجلاس میں اس صورتحال سے وزیر اعظم کو زبانی طور پر بھی آگاہ کیا لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ 7 اکتوبر 2021 کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی محمد شہزاد ارباب سے ہونے والی ملاقات میں انہیں معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود ایک افسر بھی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن فراہم نہ کر سکی۔

خط میں وفاق کے حصے کے پی اے ایس افسران کی تفصیلات درج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سندھ میں گریڈ 17 کے 538 افسران کی منظور شدہ آسامیوں میں سے وفاق کا حصہ 98 افسران بنیا ہے جن میں سے 52 فیصد کم صرف 36 افسران فراہم کئے گئے ہیں 62 افسران کا بحران ہے۔ گریڈ 18 کے 340 افسران کی منظور شدہ آسامیوں میں سے وفاق کا حصہ 85 افسران بنیا ہے جن میں سے 45 فیصد کم صرف 53 افسران فراہم کئے گئے ہیں 32 افسران کا بحرا ہے۔

گریڈ 19 کے 277 افسران کی منظور شدہ آسامیوں میں سے وفاق کا حصہ 59 افسران بنیا ہے جن میں سے 80 فیصد کم صرف 26 افسران فراہم کئے گئے ہیں 33 افسران کا بحران ہے۔ گریڈ 20 کے 142 افسران کی منظور شدہ آسامیوں میں سے وفاق کا حصہ 67 افسران بنا ہے جن میں سے 75 فیصد کم صرف 19 افسران فراہم کئے گئے ہیں 48 افسران کا بحران ہے۔

گریڈ 21 کے 25 افسران کی منظور شدہ آسامیوں میں سے وفاق کا حصہ 16 افسران بنیا ہے جن میں سے 75 فیصد کم صرف 4 افسران فراہم کئے گئے ہیں افسران کا بحران ہے۔ خط میں اٹارٹی جنرل پاکستان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں وفاق سے رجوع کرے تاکہ افسران کی تعیناتی کا مسئلہ حل ہو سکے۔

اس حوالے سے خط میں  سپریم کورٹ کی طرف سے سندھ حکومت کی کارکردگی سے متعلق سوال اٹھایا گیا تھا جس پر عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے اعلیٰ افسران فراہم نہیں کئے جا رہے جس کی وجہ سے 187 انتظامی عہدے متاثر ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اعلیٰ افسران کی قلت کے باعث سندھ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا، گریڈ 18 سے گریڈ 20 کے 100 افسران نیب شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔

افسران کی کمی کے باعث تمام تر عدالتی احکامات کے باوجود 200 سے زائد جونیئر افسران کو اضافی چارج دیکر حکومتی امور چلائے جارہے ہیں۔ جبکہ نصف درجن سے محکمے مستقل سیکریٹریز، ڈپٹی سیکریٹریز اور ایڈیشنل سیکریٹریز سے محروم ہیں جبکہ سیکشن افسران کے بھی درجنوں عہدوں کو او پی ایس پر چلایا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت جان بوجھ کہ افسران کی تعیناتی میں روڑے اٹکا رہی ہے تاکہ ہماری کارکردگی متاثر ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف او پی ایس اور لک آفٹر چارج پر پابندی عائد کر دی گئی ہے دوسری طرف افسران فراہم نہیں کئے جا سکے جس کی وجہ انتظامی امور کو انجام دینے میں سنگین دشواریون کا سامنا ہے دفاتر فائلوں سے بھر گئے ہیں۔