عالمی ماہرین نے سوشل میڈیا کواضطراب اور ذہنی تنائو پھیلانے کا بڑا ذریعہ قرار دے دیا۔
ماہرین کے مطابق لائکس نہ ملنے اور منفی تبصروں سمیت نا پسندیدہ پوسٹوں سے لاکھوں مرد و خواتین شدید ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ جبکہ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ سماجی ویب سائٹس کو ذہنی و جسمانی ہراسگی کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
’’اسٹیٹ آف مینٹل ہیلتھ ِان امریکا‘‘ نامی رپورٹ کے مطابق کورونا لاک ڈائون کے دوران سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے والے لاکھوں صارفین کو ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ نفسیاتی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا سائٹس سے لاکھوں نوجوان قنوطیت، تنہائی اوراضطراب کا شکار ہوئے ہیں اور سینکڑوں نوجوانوں نے اس ڈپریشن کی وجہ سے خودکشیاں بھی کیں۔
’’ڈیلی میل آن لائن‘‘ کے مطابق کورونا لاک ڈائون کے دوران برطانیہ میں بھی تنہائی کی شکار خواتین کے جسمانی اور معاشی استحصال کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا۔ ادھر امریکی ریاست میسا چوسٹس میں جنرل اسپتال کی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ سوشل میڈیا سے انسانی صحت اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں پانچ ہزار سے زائد صارفین کو شامل کیا گیا تھا اوران پرایک برس تک ڈپریشن کی علامات کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق میں دیکھا گیا کہ صارفین میں ڈپریشن کی شدت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ محققین کا کہنا ہے کہ صارفین کے اندر ڈپریشن سوشل میڈیا سائٹس کے استعمال سے پیدا ہوا۔ ایک اسپیشل امریکی تحقیقی ٹیم نے اٹھارہ سال اور اس سے زائد العمر سوشل میڈیا صارفین پر توجہ مرکوز کی۔ جن میں دو تہائی خواتین شامل تھیں۔ محققین نے اس بات کو جانچا کہ اگر نوجوانوں کو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر مطلوبہ لائیکس (likes) نہ ملیں تو وہ اداسی اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں اور منفی رجحانات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ بچوں میں سوشل سائٹس اور ایپلی کیشن کے استعمال سے قنوطیت کا شکار ہونے کا انکشاف ’’چائلڈ ڈویلپمنٹ‘‘ نامی ایک عالمی جریدے کے مقالہ میں کیا جا چکا ہے۔ اس سروے میں شامل ایکسپرٹس نے نو عمر لڑکے اور لڑکیوں سے کہا کہ وہ ایک نیا پروفائل بنائیں اور اپنے ہم عمر ساتھیوں کے اسٹیٹس کو دیکھیں اور لائک بھی کریں۔ ایکسپرٹس نے ان پروفائلز کو لائیکس کی بنیاد پر اوپر اور نیچے رکھا۔ لیکن اس کھیل کے پیچھے سافٹ ویئر تھا، یعنی کمپیوٹر۔ اسکرپٹس کے مطابق اپنی مرضی سے کسی کو کم اور دوسرے کو زیادہ لائیکس دے رہے تھے۔ یہ سلسلہ بار بار دہرایا گیا اور اس کے بعد تمام لڑکیوں اور لڑکوں سے ایک سوالنامہ بھروایا گیا۔ جو ان کے موڈ کو ظاہر کرتا تھا۔ اس تجربہ سے علم ہوا کہ جن صارفین کو زیادہ لائیکس ملے ۔انہوں نے مسرت کا اظہارکیا۔ لیکن کم لائیکس والے اداسی اورتناؤ کا شکار دکھائی دیے۔
سوشل میڈیا کے سماج پر منفی اثرات کے بارے میں امریکی اور یورپی ماہرین اس نکتہ پراتفاق کرتے ہیں کہ لڑکپن سے جوانی تک کا سفر بے حد حساس ہوتا ہے۔ اس دوران کوئی بھی منفی تاثر اور ذہنی تناؤ ان کی سوچ پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ اسی لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی خود اعتمادی کا ہر ممکن خیال رکھیں۔ اداسی یا ڈپریشن کا یہ خدشہ ’’ٹک ٹاک‘‘ اور’’اسنیپ چیٹ‘‘ کے تیس سے پینتیس برس عمر کے صارفین میں زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن اسی تناظر میں’’ فیس بک‘‘ صارفین میں یہ معاملہ الٹ محسوس ہوا۔ جہاں زیادہ عمر کی بجائے تیس برس سے کم عمر صارفین میں ڈپریشن کے زیادہ خطرات کو دریافت کیا گیا۔
محققین کے مطابق سماجی رابطوں کی سائٹس کا استعمال کسی بھی عمر کے صارف میں ذہنی یا نفسیاتی دبائو پیدا کر سکتا ہے۔ امریکی ریاست میسا چوسٹس میں جنرل اسپتال کے نفسیاتی ایکسپرٹس کا کہنا تھا کہ عمر اور ڈپریشن میں واضح وجہ اور اثرات تو ابھی واضح نہیں ہیں۔ مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ سوشل میڈیا اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق بے شک موجود ہے۔