چاندی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث اس کاروبار سے جڑے افراد نے چاندی کے بجائے المونیم کے ورق بنانا شروع کر دیے جو چاندی کے ورق کے نام سے لوگوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔ کراچی میں مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خورونوش کی دکانوں پر گاہکوں کو چاندی کے بجائے المونیم کے ورق کھلائے جا رہے ہیں۔
چاندی کے ورق بنانے کے کار خانے، لالو کھیت، بڑا بورڈ، پاک کالونی، سولجر بازار، رامسوامی اور اورنگی ٹائون میں قائم ہیں۔ جہاں پہلے چاندی کے ورق بنانے کا کام ہوتا تھا۔ مگراب زیادہ ترکارخانوں میں المونیم کے ورق تیارکیے جا رہے ہیں جو انسانی صحت کیلیے نقصان دہ ہیں۔
اس وقت المونیم کے ورق کی بڑی مارکٹیں یوسف پلازہ کے عقب میں، لالو کھیت فردوس شاپنگ سینٹر والی گلی میں اور نیو کراچی سندھی ہوٹل میں قائم ہیں۔ یہاں سے یہ ورق مٹھائی کی دکانوں اور اندرون سندھ بھی سپلائی ہوتے ہیں۔ چاندی کے ورق کس طرح سے بنتے ہیں؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایک کاریگر دلشاد قریشی کا کہنا تھا کہ چاندی کے ورق بنانے کیلیے کار خانے میں چمڑے سے بنی ایک کتاب ہوتی ہے جس کا ہر ورق چمڑے کا ہوتا ہے۔ یہ کتاب دو سو چمڑے کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں ہر دو چمڑے کے ٹکڑوں کے درمیاں چاندی کا ایک مربع انچ کا ٹکڑا رکھا جاتا ہے۔
یعنی پوری کتاب میں ہر دو چمڑے کے ٹکڑوں کے درمیان مجموعی طور پر سو چاندی کے ایک مربع انچ کے ٹکڑے رکھے جاتے ہیں۔ پھر کتاب کو مکمل بند کرکے اس کو چوڑے لکڑی کے بھاری ہتھوڑوں سے ایک گھنٹے تک مسلسل کوٹا جاتا ہے۔ جس کے بعد اندر موجود چاندی کے ٹکڑے ایک ورق کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ جن کا سائز 6 بائی 6 انچ ہوتا ہے۔ پھر انہیں احتیاط سے نکال کر دو سادہ اور صاف کاغذ کے ٹکڑوں کے درمیان محفوظ کر لیا جاتا ہے جنہیں بعد میں مختلف مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔
اس وقت کراچی میں اصل چاندی کے سو ورق کی قیمت 12 سو روپے تک چل رہی ہے۔ بہت سی جگہوں پر 100 چاندی کے ورق کا بنڈل 500 سے 600 روپے میں بھی دستیاب ہے۔ لیکن لوگوں کو علم نہیں کہ جو چاندی کا ورق وہ سستے داموں خرید رہے ہیں، وہ چاندی کا نہیں بلکہ ایلمونیم کا ورق ہے۔
المونیم کا ورق بھی اسی طرح تیار کیا جاتا ہے جیسے چاندی کا ورق تیار کیا جاتا ہے، چاندی اورالمونیم کے ورق کو پہچاننے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو ورق المونیم کا ہوگا وہ بہت زیادہ چمک دار ہوگا اور سورج کی روشنی میں اس کی شعاعیں منعکس کرے گا۔ جبکہ چاندی کا ورق کافی مدھم ہوگا اور وہ روشنی کو منعکس نہیں کرے گا۔
المونیم کا ورق خوراک میں استعمال کرنا نہایت ہی نقصان دہ ہے کیونکہ یہ ہضم نہیں ہوتا یہ پیٹ کے اندر موجود آنتوں میں چپک جاتا ہے اس کی وجہ سے پیٹ میں درد جیسی علامتیں عام ہیں۔ ڈاکٹر اس مرض سے چھٹکارے کیلیے آنتوں کا آپریشن ہی تجویز کرتے ہیں۔ کاریگر کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے کراچی میں 80 فیصد ورق چاندی کے نام پر المونیم کے ہی فروخت کئے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ چاندی کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے۔
پکوان سینٹر والے اور مٹھائیوں کی دکان کے مالکان سب کچھ جانتے ہوئے بھی المونیم کا ورق خریدتے ہیں۔ کیونکہ اس کی قیمت کم ہوتی ہے اور انہیں اپنی مٹھائیاں اور دیگر اشیا سجانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اب تو کئی کارخانوں میں اس کام کیلئے مشینیں بھی آگئی ہیں جو المونیم کو کچھ ہی منٹوں میں ورق میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ جبکہ چاندی کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ چاندی کو ورق کی شکل دینے میں کافی محنت درکار ہوتی ہے اور اسے کوٹ کوٹ کر ورق کی شکل دی جاتی ہے۔ اگر چاندی کو مشین کے ذریعے ورق میں تبدیل کیا جائے تو وہ دبائو برداشت نہیں کر پاتی اوراس کا ورق تیار ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کر خراب ہو جاتا ہے۔
چاندی کا ورق مٹھائیوں کے ساتھ ساتھ حکما بھی اپنی ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم حکما جو ورق استعمال کرتے ہیں وہ سو فیصد خالص چاندی کا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر چاندی کے علاوہ وہ جعلی ورق اپنی ادویات میں استعمال کریں گے تو ان کی ادویات کی وہ تاثیر نہیں ہوگی جو چاندی کے ورق کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لئے اس وقت کراچی میں جتنے بھی حکما چاندی کے ورق اپنی ادویات میں استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اپنے پاس موجود خصوصی کاریگروں سے چاندی کے ورق تیار کرواتے ہیں۔
حکیموں کے تیار کردہ ورق باہر فروخت نہیں کیے جاتے اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسے اصل چاندی کا ورق ملے تو اس کیلیے اسے اپنی چاندی خرید کراوراسے ایک مربع انچ کے ٹکڑوں میں کٹوا کر ورق تیار کرنے والے کارخانے میں لے جانا ہوگا جہاں ہاتھ سے ورق تیار کیے جاتے ہیں۔
اس وقت جتنے کارخانے کراچی میں چاندی کے نام پر المونیم کے ورق تیار کرکے مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔ ان تمام کارخانہ مالکان کی محکمہ فوڈ کے افسران اور علاقے پولیس سے معاملات پہلے سے طے ہوتے ہیں۔ ماہانہ رشوت کے عوض یہ ادارے ان افراد کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پورے کراچی میں المونیم کے ورق شہریوں کو کھلا کر ان کی صحت کے ساتھ سنگین کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔